اقوام متحدہ کے ماہرین تحقیقات کرنے پاکستان نہیں آئے

  • ج

پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ یہ دورہ پاکستان اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے درمیان جاری اشتراک اور تعاون کا حصہ ہے۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کے بارے اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ حکومت کی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ دورہ پاکستان اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے درمیان جاری اشتراک اور تعاون کا حصہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ورکنگ گروپ نتائج اخذ کرنے یا تحقیقات کے لیے پاکستان نہیں آیا بلکہ ماہرین پاکستانی حکام سے اپنی تحقیقات پر تبادلہ خیال کریں اور رواں ماہ کی 20 تاریخ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی بات چیت کریں گے۔

حنا ربانی کھر نے اس تاثر کی بھی نفی کہ یہ گروپ لاپتہ افراد کے مسئلے کی تحقیقات کے لیے ملک کا دورہ کر رہا ہے۔ ان کے بقول ورکنگ گروپ کا دورہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ ہے اور پاکستان کی طرح 91 دیگر ممالک نے بھی اقوام متحدہ کے گروپ کو اپنے ہاں دورے کی دعوت دی ہے۔

دریں اثناء وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھی ورکنگ گروپ کے دورہ پاکستان پر ہونے والی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے یہ ایک عام دورہ ہے۔


رحمن ملک

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں رحمٰن ملک نے کہا کہ ’’یہ کمیشن نہ تو ہمارے خلاف تحقیقات کر رہا ہے اور نہ ہی یہ کوئی تفتیشی کمیشن ہے… ہمیں پتا ہے بلوچستان میں کون سے بیرونی عناصر کام کر رہیں اس لیے ہم پر جو الزام لگا ہے اس کو کلیئر کرنے کا ہمیں موقع ملے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ کا وفد گزشتہ اتوار کو پاکستان پہنچا تھا اور اپنے دس روزہ دورے میں وہ سرکاری عہدیداروں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کرے گا۔

ایک روز قبل ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے اس وفد سے ملاقات کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

سپریم کورٹ کے ایک بیان کے مطابق ایک خط کے ذریعے وزارت خارجہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہیں اور ’’مروجہ اصولوں کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی معاملات پر گفت و شنید نہ کریں‘‘۔

اس ورکنگ گروپ کی آمد پر پاکستانی پارلیمان میں بھی تنقید کی صدائیں بلند ہوئیں اور بعض ارکان نے اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔