پاکستان بھی 2013ء تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے مگر اطلاعات کے مطابق اُس نے بھی حقانی نیٹ ورک پر پابندیوں کی مخالفت نہیں کی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نےمبینہ طور پر پاکستان میں موجود حقانی نیٹ ورک اور اس شدت پسند تنظیم کی خودکش کارروائیوں کے نگران قاری ذاکر پر قدغنیں لگانے کا حکم دیا ہے۔
حقانی نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں اپنی کمین گاہوں سے سرحد پار افغانستان میں مقامی اورغیر ملکی اہداف پرحملوں میں ملوث ہے۔
طالبان پر پابندیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کے فیصلے کا اعلان عالمی تنظیم کے لیے امریکی سفیر سوزن رائس نے پیر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کیا۔
’’اقوام متحدہ کی تمام رُکن ریاستوں پرلازم ہے کہ وہ ذاکر اور حقانی نیٹ ورک پراِن قدغنوں کا اطلاق کرتے ہوئے اُن کے اثاثے منجمد کرکے اُن پرسفری پابندیاں عائد کریں اوراُنھیں ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھیں۔‘‘
صدربراک اوباما کی انتظامیہ نے بھی پیر کے روز ذاکر کو’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورکے اُن تربیتی منصوبوں کی سربراہی بھی کرتا ہے جن میں بنیادی دیسی ساخت کے بموں کی تیاری کے علاوہ چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی ہدایات بھی دی جاتی ہیں۔
امریکہ نے ستمبر میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست میں شامل کیا تھا اور اب اس میں قاری ذاکر کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے جو عبد الرؤف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ذاکر جن افغان صوبوں میں حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کا کمانڈر ہے ان میں کابل، قندوز، تخار اور بغلان شامل ہیں۔
افغان جنگجوؤں پر مشتمل حقانی نیٹ ورک طالبان کا اتحادی ہے اور زیادہ تر اس کے حملوں کا ہدف نیٹو اورامریکی افواج رہی ہیں۔
عالمی تنطیم کی فہرست میں یہ اضافہ طویل عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ عمومی طور پر پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ایسے فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان بھی 2013ء تک کونسل کا رکن ہے مگراُس نے حقانی نیٹ ورک پر پابندیوں کی مخالفت نہیں کی۔
پاکستان اپنی فوج کے خفیہ ادارے، آئی ایس آئی، اورحقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلق کے امریکی الزامات کی تردید کرتا ہے۔
وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمود شاہ کا ماننا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پر پابندیاں عملی طور پر اس عسکری تنظیم کو متاثر نہیں کریں گی۔
’’حقانی نیٹ ورک بظاہر بین الاقوامی مالی لین دین میں ملوث نہیں، نہ ہی بیرونی ممالک میں ان کے کوئی نمائندے ہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی پابندیاں برائے نام ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ بظاہر اس ’’کاغذی کارروائی‘‘ کا مقصد سیاسی اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے پر اسے مجبور کیا جاسکے۔
محمود شاہ نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا، پکتیکا اور خوست ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نیٹو افواج پہلے وہاں پر اس تنظیم کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے۔
’’فی الحال تو امریکی فوجیں افغانستان سے انخلاء کا سوچ رہی ہیں لہذا وہاں پر کسی بڑی فوجی کارروائی کے امکانات کم ہیں۔ پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز مختلف محاذوں پر برسر پیکار ہیں جب کہ چند ماہ بعد انتخابات بھی متوقع ہیں اس لیے یہاں بھی حکومت شمالی وزیرستان میں کسی فوجی مہم جوئی سے گریز کرے گی۔‘‘
باور کیا جاتا ہے کہ افغان سرحد سے متصل شمالی وزیرستان کا علاقہ اس تنظیم کا مضبوط گڑھ ہے اور بغیر پائلٹ کے امریکی طیاروں یا ڈرونز سے کیے جانے والے میزائل حملے بھی زیادہ تر اسی پاکستانی قبائلی خطے میں کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی خصوصی بلیک لسٹ میں ذاکر سمیت اب 131 افراد اور تین تنظیموں کے نام شامل ہوگئے ہیں جن میں سے ایک حقانی نیٹ ورک بھی ہے۔
حقانی نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں اپنی کمین گاہوں سے سرحد پار افغانستان میں مقامی اورغیر ملکی اہداف پرحملوں میں ملوث ہے۔
طالبان پر پابندیوں سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کے فیصلے کا اعلان عالمی تنظیم کے لیے امریکی سفیر سوزن رائس نے پیر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کیا۔
’’اقوام متحدہ کی تمام رُکن ریاستوں پرلازم ہے کہ وہ ذاکر اور حقانی نیٹ ورک پراِن قدغنوں کا اطلاق کرتے ہوئے اُن کے اثاثے منجمد کرکے اُن پرسفری پابندیاں عائد کریں اوراُنھیں ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھیں۔‘‘
صدربراک اوباما کی انتظامیہ نے بھی پیر کے روز ذاکر کو’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورکے اُن تربیتی منصوبوں کی سربراہی بھی کرتا ہے جن میں بنیادی دیسی ساخت کے بموں کی تیاری کے علاوہ چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی ہدایات بھی دی جاتی ہیں۔
امریکہ نے ستمبر میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست میں شامل کیا تھا اور اب اس میں قاری ذاکر کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے جو عبد الرؤف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ذاکر جن افغان صوبوں میں حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کا کمانڈر ہے ان میں کابل، قندوز، تخار اور بغلان شامل ہیں۔
عالمی تنطیم کی فہرست میں یہ اضافہ طویل عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ عمومی طور پر پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ایسے فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان بھی 2013ء تک کونسل کا رکن ہے مگراُس نے حقانی نیٹ ورک پر پابندیوں کی مخالفت نہیں کی۔
پاکستان اپنی فوج کے خفیہ ادارے، آئی ایس آئی، اورحقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلق کے امریکی الزامات کی تردید کرتا ہے۔
وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمود شاہ کا ماننا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پر پابندیاں عملی طور پر اس عسکری تنظیم کو متاثر نہیں کریں گی۔
’’حقانی نیٹ ورک بظاہر بین الاقوامی مالی لین دین میں ملوث نہیں، نہ ہی بیرونی ممالک میں ان کے کوئی نمائندے ہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی پابندیاں برائے نام ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ بظاہر اس ’’کاغذی کارروائی‘‘ کا مقصد سیاسی اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے پر اسے مجبور کیا جاسکے۔
محمود شاہ نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا، پکتیکا اور خوست ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نیٹو افواج پہلے وہاں پر اس تنظیم کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے۔
’’فی الحال تو امریکی فوجیں افغانستان سے انخلاء کا سوچ رہی ہیں لہذا وہاں پر کسی بڑی فوجی کارروائی کے امکانات کم ہیں۔ پاکستان میں بھی سکیورٹی فورسز مختلف محاذوں پر برسر پیکار ہیں جب کہ چند ماہ بعد انتخابات بھی متوقع ہیں اس لیے یہاں بھی حکومت شمالی وزیرستان میں کسی فوجی مہم جوئی سے گریز کرے گی۔‘‘
باور کیا جاتا ہے کہ افغان سرحد سے متصل شمالی وزیرستان کا علاقہ اس تنظیم کا مضبوط گڑھ ہے اور بغیر پائلٹ کے امریکی طیاروں یا ڈرونز سے کیے جانے والے میزائل حملے بھی زیادہ تر اسی پاکستانی قبائلی خطے میں کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی خصوصی بلیک لسٹ میں ذاکر سمیت اب 131 افراد اور تین تنظیموں کے نام شامل ہوگئے ہیں جن میں سے ایک حقانی نیٹ ورک بھی ہے۔