پیرس میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جاری کانفرنس میں شریک 195 ممالک کے عہدیداروں نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے متعلق ایک سمجھوتے کے مسودہ کی منظوری دی ہے۔
اس دستاویز کا مسودہ چار سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سامنے آیا اس کا مقصد (دنیا کے) ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کی روز بروز بڑھتے ہوئے اخراج کے نتائج سے نمٹنے کا اختیار دینا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ 'سی او پی' 21 کانفرنس کے جمعہ کو اختتام سے پہلے بہت سے حل طلب مسائل پر سمجھوتا ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ نئے احکامات پر عمل درآمد کے لیے اخراجات کون ادا کرے گا۔
چین کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق خصوصی مندوب ژی ژنہوا کا کہنا ہے کہ "اس حوالے سے وسیع تر اختلافات ہیں کہ آیا ترقی یافتہ ممالک فنڈ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں یا اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مزید چینل کی ضرورت ہو گی"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "چین کا موقف ہے کہ 2020ء سے پہلے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی یقین دہانیوں کی پاسداری کرنی ہو گی"۔
امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 134 ترقی پذیر ممالک کے نمائندوں نے کچھ صنعتی ممالک کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کے لیے شرائط عائد کرنے کی کوششوں پر اعتراض کیا۔
جبکہ دیگر (ملکوں) نے اس بات کا عندیہ دیا کہ نئی تجاویز کی تیاری اور موسمیاتی (تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے) فنڈز فراہم کرنے کے نفس مضمون کی زبان ترقی یافتہ ممالک کی ہی ذمہ داری نہیں ہے۔
سائنسدان متنبہ کر چکے ہیں کہ جیسیے جیسے زمین کی حدت میں اضافہ ہو گا سمندری سطح کے بلند ہونے، تباہ کن طوفان اور خشک سالی انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
اس کانفرنس میں شریک چند ایک مندوب اس حوالے سے شکوک کا اظہار کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی برادری موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کسی سمجھوتے پر متفق ہو سکے گی۔