یوکرین کا ایف 16 لڑاکا طیارہ روسی حملہ ناکام بنانے کے دوران تباہ، پائلٹ ہلاک

فائل فوٹو

  • پیر کو روسی حملوں کو ناکام بنانے کے دوران لڑاکا طیارہ تباہ اور پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا، روسی فوج
  • یوکرین کی وزارتِ دفاع ایف سولہ طیارے کو پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
  • یوکرین کو رواں برس جولائی کے آخر میں ایف سولہ طیارے ملے تھے۔
  • روس نے گزشتہ چار روز کے دوران کیف میں تین مرتبہ ڈرون حملے کیے ہیں، روسی حکام
  • روس نے بھی جمعرات کو چھ یوکرینی ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔

ویب ڈیسک--یوکرین کی فضائیہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی اتحادیوں کی جانب سے حال ہی میں ملنے والے ایف سولہ لڑاکا طیاروں میں سے ایک طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔

یوکرین کی فوج کی جانب سے فیس بک پر جاری بیان کے مطابق لڑاکا طیارہ پیر کو اس وقت تباہ ہوا جب روس نے یوکرین کے خلاف میزائل اور ڈرونز سے کئی حملے کیے تھے اور ان حملوں کو ناکام بنانے کے دوران طیارہ تباہ اور پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا۔

یوکرین کو رواں برس جولائی کے آخر میں ایف سولہ طیارے ملے تھے۔ یوکرین میں لڑاکا طیارے کو پہنچنے والا یہ پہلا نقصان رپورٹ ہوا ہے۔

یوکرین کی وزارتِ دفاع ایف سولہ طیارے کو پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

یوکرین کی فوج نے اس سے قبل ایک بیان میں بتایا تھا کہ روس نے 74 ڈرونز اور تین گائیڈڈ میزائل کے ذریعے رات کے اندھیرے میں حملہ کیا جسے ایئر ڈیفنس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 60 ڈرونز کو مار گرایا۔

SEE ALSO: یوکرین کی فوج روسی علاقے میں داخل، روس کا یوکرینی میزائل تباہ کرنے کا دعویٰ

بیان کے مطابق روسی حملوں کو ناکام بنانے کی کارروائی دارالحکومت کیف، ڈونسک، خرسون، خرکیف، پولتاوا، چرکیسی اور سومی سمیت دیگر علاقوں میں کی گئی ہے۔

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ چار روز کے دوران کیف میں روس نے تین مرتبہ ڈرون حملے کیے ہیں تاہم کوئی بھی ڈرون اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بنا سکا ہے۔

دوسری جانب روس کی وزارتِ دفاع نے رپورٹ کیا ہے کہ اس نے جمعرات کو چھ یوکرینی ڈرون مار گرائے ہیں جب کہ سمندری حدود سے کریمیا کی جانب بڑھنے والے حملوں کو بھی ناکام بنا دیا گیا ہے۔

روس نے فروری 2022 میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس اس کارروائی کو خصوصی ملٹری آپریشن قرار دیتا ہے۔ اس جنگ میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس'، 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔)