صدر پیٹرو پوروشنکو کے لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کے اعلان کے بعد باغیوں نے ڈونسک کے علاقے میں یوکرین کی ایک چوکی پر حملہ کیا جس میں تین اہلکار زخمی ہوئے۔
روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے یوکرین کے صدر کی طرف سے یک طرفہ فائر بندی کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے جس سے ملک کے مشرق میں ہونے والے تصادم کے خاتمے کی کوششوں پر شک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یوکرین کی سرحدی فورس کے مطابق صدر پیٹرو پوروشنکو کے لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کے اعلان کے بعد باغیوں نے ڈونسک کے علاقے میں ان کی ایک چوکی پر حملہ کیا جس میں تین اہلکار زخمی ہوئے۔
جمعہ کو فائر بندی کا اعلان یو کرین میں جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے تازہ ترین کوشش تھی۔ اس لڑائی میں گزشتہ مہینوں کے دوران روس کے حمایت یافتہ جنگجو ڈونسک اور مشرقی علاقے میں کئی قصبوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔
پوروشنکو نے یوکرین فوج اور سکیورٹی فورسز کو ایک ہفتے تک جنگ بندی کی ہدایت کرتے ہوئے باغیوں کو عسکریت پسندی ترک کرنے کا کہا تھا۔
ان کی طرف سے 14 نکاتی منصوبے میں یوکرین و روس کے درمیان سرحدی علاقے کو فوج سے پاک کرنے کے طریقہ کار سمیت مشرقی یوکرین میں موجود جنگجوؤں کے نکلنے کا راستہ وضع کیا گیا۔
ماسکو کی طرف سے علیحدگی پسندوں کی حمایت ختم کرنے اور امن معاہدے سے متعلق ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے فائربندی کو ایک ’’آخری انتباہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک بیان میں کریملن کا کہنا تھا کہ صدر ولادیمر پوٹن نے پوروشنکو کے مطالبے کی حمایت کی تھی۔
’’لیکن روسی ریاست کے سربراہ کی توجہ اس حقیقت پر مرکوز کروائی گئی کہ یہ مجوزہ منصوبہ بغیر کسی عمل کے ہے اور مذاکرات کا آغاز مناسب اور حقیقت پسندانہ نہیں۔‘‘
ہفتہ کو صدر پوٹن نے ملک کے وسطی علاقے میں تعینات فوجی دستوں کو جنگ کے لیے مکمل تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔
روسی حکام کے مطابق صدر پوٹن نے یہ حکم نئی جنگی مشقوں سے قبل دیا ہے جن میں 65 ہزار سے زائد فوجی اہلکار شریک ہوں گے۔
یوکرین کی سرحدی فورس کے مطابق صدر پیٹرو پوروشنکو کے لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کے اعلان کے بعد باغیوں نے ڈونسک کے علاقے میں ان کی ایک چوکی پر حملہ کیا جس میں تین اہلکار زخمی ہوئے۔
جمعہ کو فائر بندی کا اعلان یو کرین میں جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے تازہ ترین کوشش تھی۔ اس لڑائی میں گزشتہ مہینوں کے دوران روس کے حمایت یافتہ جنگجو ڈونسک اور مشرقی علاقے میں کئی قصبوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔
پوروشنکو نے یوکرین فوج اور سکیورٹی فورسز کو ایک ہفتے تک جنگ بندی کی ہدایت کرتے ہوئے باغیوں کو عسکریت پسندی ترک کرنے کا کہا تھا۔
ان کی طرف سے 14 نکاتی منصوبے میں یوکرین و روس کے درمیان سرحدی علاقے کو فوج سے پاک کرنے کے طریقہ کار سمیت مشرقی یوکرین میں موجود جنگجوؤں کے نکلنے کا راستہ وضع کیا گیا۔
ماسکو کی طرف سے علیحدگی پسندوں کی حمایت ختم کرنے اور امن معاہدے سے متعلق ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے فائربندی کو ایک ’’آخری انتباہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک بیان میں کریملن کا کہنا تھا کہ صدر ولادیمر پوٹن نے پوروشنکو کے مطالبے کی حمایت کی تھی۔
’’لیکن روسی ریاست کے سربراہ کی توجہ اس حقیقت پر مرکوز کروائی گئی کہ یہ مجوزہ منصوبہ بغیر کسی عمل کے ہے اور مذاکرات کا آغاز مناسب اور حقیقت پسندانہ نہیں۔‘‘
ہفتہ کو صدر پوٹن نے ملک کے وسطی علاقے میں تعینات فوجی دستوں کو جنگ کے لیے مکمل تیار رہنے کا حکم دیا تھا۔
روسی حکام کے مطابق صدر پوٹن نے یہ حکم نئی جنگی مشقوں سے قبل دیا ہے جن میں 65 ہزار سے زائد فوجی اہلکار شریک ہوں گے۔