روس کے خلاف تعزیرات، یوکرین پر چڑھ دوڑنے کی قیمت ہے: اوباما

فائل

جاری بحران میں کشیدگی کے عنصر کو کم کرنے کے حوالے، صدر نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی سختی سے مخالفت جاری رکھے گا
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ روس کے خلاف نئی تعزیرات ’وہ قیمت ہے‘ جو یوکرین میں فوجی کارروائی کے باعث روس کو چکانی پڑے گی۔

جمعرات کو وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ ریفرینڈم کی مخالفت کرتے ہیں، اس لیے کہ اس کے ذریعے کرائیمیا کے حصوں کو یوکرین سے علیحدہ ہونے اور روس میں شمولیت کا ایک جواز مل جائے گا۔

جاری بحران میں ’کشیدگی کے عنصر کو کم کرنے‘ کے حوالے سے، صدر نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ’سختی سے‘ مخالفت جاری رکھے گا۔

صدر اوباما نے یہ بیان، روسیوں کے خلاف ویزا کی پابندیاں اور معاشی تعزیرات لگائے جانے کے بعد دیا، جو یوکرین میں فوجی کارروائی پر تُلے ہوئے ہیں۔

کرائیمیا میں جارحانہ روسی اقدامات کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو درپیش غیرمعمولی خطرے کا باعث ہیں‘۔

صدرکے انتظامی حکم نامے میں مخصوص روسیوں کو ویزا جاری نہ کرنا اور اُن کے لیے مالی لین دین روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔

کانگریس کو اپنے پیغام میں، صدر نے کہا کہ اِس حکم نامے کا مقصد یوکرین کو ہدف بنانا ہرگز نہیں ہے، لیکن اس کا ہدف وہ افراد ضرور ہیں جنھوں نے کرائیمیا کے علاقے میں سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، باوجود یہ کہ اُنھیں حکومتِ یوکرین نے اس کی اجازت نہیں دی تھی، جو یوکرین میں جمہوری عمل داری اور اداروں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

حکم نامے کی زمرے میں یوکرین کے کچھ افراد آسکتے ہیں جو ملک کے عدم استحکام میں ملوث پائے جائیں گے۔

جمعرات کو جو تعزیرات لاگو کی گئی ہیں وہ محدود نوعیت کی ہیں۔ اُن کا تعلق اُن رقوم سے ہے جو امریکہ میں ہیں یا پھر غیر ممالک میں امریکی مالیاتی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ ویزا کی پابندیاں اور منسوخی صرف امریکہ سفر کرنے کے سلسلے میں ہیں۔

اوباما انتظامیہ روس کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات کے سلسلے میں اپنے اتحادیوںٕ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔


صدر نے کہا کہ امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں سے’ قریبی رابطے‘ میں رہ کر یہ اقدام کر رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس بات پر خوشی ہے کہ ’اِس فیصلہ کُن مرحلے پر بین الاقوامی یکجہتی کا برملا اظہار ہورہا ہے‘۔
یوکرین کے کرائمیا علائقے میں 16 مارچ کو اس سوال پر ریفرینڈم میں آیا یہ علاقہ روس کا حصہ بنے ، صدر کا کہنا تھا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ مسٹر اوباما نے کہا کہ یوکرین کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی گفتگو میں ’یوکرین کی حکومت کے اصل لوگ شامل ہونے چاہئیں‘۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ یہ 2014ء ہے، اور وہ دِن گزر گئے جب جمہوری رہنماؤں کا لحاظ کیے بغیر سرحدوں کا اپنی مرضی سے تعین کیا جاتا تھا۔

اس سے قبل، یورپی یونین نے یوکرین کے 18 افراد کے یورپ میں موجود اثاثوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے، جن میں معزول صدر وکٹر یانوکوچ، سابق وزیر اعظم مائکولا ازاروف اور سابق 16 وزراٴ، کاروباری شخصیات اور سکیورٹی کے سربراہ شامل ہیں۔ اس فہرست میں مسٹر یناکووچ کے دو بیٹے اور ازاروف کا ایک بیٹا بھی شامل ہیں۔

دریں اثنا، امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں، بقول اُس کے، روسی صدر پیوٹن کے یوکرین کے بارے میں ’دس غلط دعوؤں‘ کا جواب دیا گیا ہے۔

مسٹر پیوٹن کے اس دعوے پر کہ روسی افواج نہیں، بلکہ ’شہریوں کے دفاعی گروپوں‘ نے کرائمیا میں یوکرین کے زیریں ڈھانچے اور فوجی تنصیبات پر قبضہ کیا ہے، محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اس بات کا ’واضح ثبوت‘ موجود ہے کہ کرائمیا میں روسی سلامتی کے اہل کاروں کو بھیجا گیا ہے، جو منظم طور پر یوکرین کے انتہائی مخالف ہیں۔