جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر نے کہا کہ یوکرین کے بعض حصوں خاص طور پر ملک کے شمالی علاقوں میں صورت حال بدستور خطرناک ہے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر شٹائن مائر منگل کو یوکرین پہنچے، جہاں اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رواں ہفتے حکومت اور دیگر گروپوں کے درمیان ’راؤنڈ ٹیبل‘ مذاکرات سے روس کے حامی علیحدگی پسندوں کو غیر مسلح کرنے میں مدد ملے گی۔
رواں ماہ کے اواخر میں یوکرین میں انتخابات ہونا ہیں جس سے قبل صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیز کی گئی ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ فرینک والٹر نے کیئف کے ہوائی اڈے پر یوکرین کے وزیراعظم آرسنی یاتسینوک سے ملاقات کی جس کے بعد وہ اوڈیسا روانہ ہو گئے جہاں یوکرین کی فورسز اور باغیوں کے درمیان سب سے مہلک جھڑپیں ہوئیں۔
جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یوکرین کے بعض حصوں خاص طور پر ملک کے شمالی علاقوں میں صورت حال بدستور ’’خطرناک‘‘ ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ترجیح 25 مئی کے صدارتی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔
یوکرین کے وزیراعظم کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ہم قومی مذاکرات شروع کرنے کے لیے آپ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ان اقدامات سے مسلح افراد سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑ دیں گے جس کے بعد بتدریج وہ اسلحہ چھوڑ دیں گے اور حکومت کی عمل داری بحال ہو سکے گی۔
کیئف نے اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا کہ کون سا گروپ مذاکرات میں شامل ہو گا لیکن قائم مقام صدر الیگزینڈر ٹرچینوف نے کہا کہ ’’دہشت گرد‘‘ جن سے مراد باغی ہیں، وہ اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ کیئف اور علیحدگی پسندوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس سے قبل امریکہ نے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے کروائے گئے ریفرنڈم کو ’’انتشار پھیلانے کی کوشش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اس عمل کو تسلیم نہیں کرتا۔
مشرقی یوکرین کے دو علاقوں دونیٹسک اور لوہانسک میں اتوار کو روس نواز علیحدگی پسندوں نے ریفرنڈم کروائے تھے جن میں ان علاقوں کے نام نہاد الیکشن کمیشن کے مطابق 89 فیصد ووٹروں نے یوکرین سے آزادی کے حق میں ووٹ دیئے۔
یوکرین کے عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف نے باغیوں کی زیر نگرانی ہونے والے ریفرنڈم کو ’’پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ٹرچینوف کا کہنا تھا کہ وہ مشرقی یوکرین میں اُن افراد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ’’جن کے ہاتھ خون آلود نہیں ہیں اور وہ اُن کے مقاصد کا قانونی طریقے سے دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
رواں ماہ کے اواخر میں یوکرین میں انتخابات ہونا ہیں جس سے قبل صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیز کی گئی ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ فرینک والٹر نے کیئف کے ہوائی اڈے پر یوکرین کے وزیراعظم آرسنی یاتسینوک سے ملاقات کی جس کے بعد وہ اوڈیسا روانہ ہو گئے جہاں یوکرین کی فورسز اور باغیوں کے درمیان سب سے مہلک جھڑپیں ہوئیں۔
جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یوکرین کے بعض حصوں خاص طور پر ملک کے شمالی علاقوں میں صورت حال بدستور ’’خطرناک‘‘ ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ترجیح 25 مئی کے صدارتی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔
یوکرین کے وزیراعظم کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ہم قومی مذاکرات شروع کرنے کے لیے آپ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ان اقدامات سے مسلح افراد سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑ دیں گے جس کے بعد بتدریج وہ اسلحہ چھوڑ دیں گے اور حکومت کی عمل داری بحال ہو سکے گی۔
کیئف نے اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا کہ کون سا گروپ مذاکرات میں شامل ہو گا لیکن قائم مقام صدر الیگزینڈر ٹرچینوف نے کہا کہ ’’دہشت گرد‘‘ جن سے مراد باغی ہیں، وہ اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔
ماسکو کا کہنا ہے کہ کیئف اور علیحدگی پسندوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس سے قبل امریکہ نے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے کروائے گئے ریفرنڈم کو ’’انتشار پھیلانے کی کوشش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اس عمل کو تسلیم نہیں کرتا۔
مشرقی یوکرین کے دو علاقوں دونیٹسک اور لوہانسک میں اتوار کو روس نواز علیحدگی پسندوں نے ریفرنڈم کروائے تھے جن میں ان علاقوں کے نام نہاد الیکشن کمیشن کے مطابق 89 فیصد ووٹروں نے یوکرین سے آزادی کے حق میں ووٹ دیئے۔
یوکرین کے عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف نے باغیوں کی زیر نگرانی ہونے والے ریفرنڈم کو ’’پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ٹرچینوف کا کہنا تھا کہ وہ مشرقی یوکرین میں اُن افراد کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ’’جن کے ہاتھ خون آلود نہیں ہیں اور وہ اُن کے مقاصد کا قانونی طریقے سے دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘