یوکرین کی افواج اور روس کی پشت پناہی والے علیحدگی پسندوں نے ہفتے کو بھاری توب خانے سے شدید گولہ باری کی، جس سے کچھ ہی گھنٹے بعد یورپی ثالثی کی مدد سے ہونے والی جنگ بندی کا نفاذ ہونے والا ہے۔
جنگ بندی کا آغاز مقامی وقت کے مطابق، ہفتے اور اتوار کی نصف شب سے ہوگا۔ اس سے کئی روز قبل، یعنی جمعرات کو، فرانس، جرمنی، یوکرین اور روس؛ اور روس کے حامی علیحدگی پسندوں اور یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی اِی) کے درمیان ہونے والے طویل مذاکرات کےنتیجے میں یہ سمجھوتا طے پایا تھا۔
توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس ہوگا جس میں جنگ بندی پر غور کیا جائے گا۔ عالمی ادارے کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ 15 رکنی ادارہ روس کے مسودہٴقرارداد پر ووٹ دے گا، جس میں تمام فریق سے سمجھوتے پر عمل درآمد کے لیے کہا جائے گا۔
مشرقی یوکرین کے حکمت عملی کے حامل دیبالسیو کے کلیدی علاقے میں لڑائی سنگین صورت اختیار کر گئی ہے۔ جمعے کے روز شروع ہونے والی اس لڑائی کے دوران کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں یوکرین کے فوجی اور شہری شامل ہیں۔
ہفتے ہی کے دِن، یوکرین میں امریکی سفیر، جوفری پیاٹ نے ٹوئٹر پر شائع کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر میں لموواٹکا کے قصبے کے قریب، جو دیبالسیو سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے،نصب کیے گئے روسی توب خانے کا نظام صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اِن تصاویر کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو پائی۔
روس اس بات پر مصر ہے کہ وہ سرحد پار لڑائی میں فوجی یا اسلحہ فراہم نہیں کر رہا؛ جسے علیحدگی پسندوں نے شروع کیا اور جس میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران اب تک کم از کم 5400 افراد ہلاک، جب کہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔
ادھر، امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے جمعے کے روز کی بریفنگ میں کہا ہے کہ، ’سرحد اور ’لائن آف کانٹیکٹ‘ پر جاری لڑائی پر ہمیں بہت تشویش ہے، جو گنجان آباد علاقے ہیں، جہاں پچھلے چند روز سے روسی سرحد پار سےٹینکوں اور میزائل نظام پہنچنے کی مزید خبریں موصول ہو رہی ہیں‘۔
ساکی کے بقول، ’روس کی فوج نے دیبالسیو کے مضافات میں بھاری دہانے والے ہتھیار اور مختلف قسم کے راکیٹ لانچر نظام نصب کر دیے ہیں، جہاں سے یوکرین کی پوزیشنوں پر گولہ باری کی جارہی ہے‘۔