برطانیہ میں انتخابات: نئی حکومت کون بنائے گا؟

رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں کے مطابق اس بار برطانوی تاریخ میں سخت ترین انتخابی مقابلے کی توقع ہے کیونکہ مقابلہ کانٹے کا ہے جس میں دونوں جماعتوں کو 34 فیصد عوامی حمایت حاصل ہے ۔

برطانیہ میں سات مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ابھی کچھ ہفتے باقی ہیں اور ووٹروں کی بڑی تعداد شاید ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی ہے،کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ کس سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالیں گی۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے بھی آخری انتخابی مرحلے سے پہلے انہی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔

جمعرات کوٹی وی پر نشر ہونے والے سیاسی رہنماؤں کے آخری مباحثے کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اب تک حکمراں جماعت کنزرویٹیو (ٹوری) اور اپوزیشن جماعت لیبر دو بڑی حریف جماعتوں کے طور پر ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ جنھیں تقریباً ایک ہی جیسی عوامی حمایت حاصل ہے، لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون اور ملی بینڈ کے درمیان وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لیے سخت مقابلہ کی توقع ہے۔

لبرل ڈیمو کریٹ جو روایتی طور پر برطانیہ کی تیسری بڑی جماعت رہی ہے لیکن اس انتخابات کے جائزوں کے مطابق دائیں بازو کی جماعت یوکے انڈی پینڈنٹ (یوکپ) تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھر رہی ہے۔ ادھر بائیں بازو کی جماعت گرین پارٹی چوتھے اور نک کلیگ کی جماعت لب ڈہم تیسری سے پانچویں پوزیشن پر دکھائی دے رہی ہے۔

پارلیمان کی 650 نشستوں کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ چھوٹی جماعتوں میں یوکپ اسکاٹش نیشنل پارٹی،گرین پارٹی، پلائڈ کمری سمیت ریسپیکٹ پارٹی، برٹش نیشنل پارٹی اور انگلش ڈیمو کریٹ کے درمیان سخت مقابلےکی امید ہے۔

ٹی وی مباحثوں میں رہنماؤں کے وعدے :

سیاسی رہنماؤں نے اب تک ٹی وی مباحثوں میں امیگریشن، این ایچ ایس، قومی معیشت، سرکاری اخراجات، ٹیکس فوائد، ہاوسنگ، یونیورسٹی فیس سمیت دیگر اہم مسائل پر دھواں دار تقاریر کی ہیں جس میں عوامی مسائل کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ رہنماؤں کی جانب سےخارجہ پالیسی سے متعلق نقطئہ نظر کی وضاحت میں تاخیر کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ٹی وی مباحثے میں عوام سےایک بار پھر اپنے موقف کی تائید مانگی۔ انھوں نے کہا کہ 2010 کے انتخابات سے قبل ان کی جماعت نے جو وعدے کئے تھے ان کی تکمیل کے لیے مزید وقت درکار ہوگا، لہذا انھیں ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہونے کا موقع دیا جائے۔

میڈیا ذرائع کی خبروں کے مطابق ڈیوڈ کیمرون کے بعض معاشی پروگراموں کو ملکی ترقی کے لیے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ انھیں انتخابات سے قبل تاجر طبقے کی جانب سے حمایت کا یقین دلایا گیا ہے جبکہ یورپی یونین تارکین وطن کے حوالے سے برطانوی عوام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے، انھوں نے 2017 میں یورپی یونین کی رکنیت پر ریفرنڈم کا انعقاد کرانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

دوسری جانب 1997 سے 2010 تک برسر اقتدار رہنے والی ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت لیبر کے رہنما ایڈ ملی بینڈ حکومتی پالیسیوں سے ناراض، عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جن پر ڈیوڈ کیمرون کی حکومت میں بیڈ روم ٹیکس اور دیگر بینیفٹس پر کٹوتی عائد کی گئی ہے۔ ملی بینڈ نے غریبوں سے تنخواہوں میں اضافے اور انرجی بلوں کو فریز کرنے کا وعدہ کیا ہے انھیں یونیورسٹی طلبہ تنظیموں کی حمایت حاصل ہوئی ہے جن سے انھوں نے یونیورسٹی فیس 9,000 ہزار پاونڈ سے کم کر کے 6,000 پاونڈ سالانہ کا وعدہ کیا ہے۔

'آئی ٹی وی' پر نشر ہونے والے سات سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے مباحثے کے بعد انتخابات کے منظر نامہ کی پیش گوئیوں اور قیاس آرائیوں میں تبدیلی ہوئی ہے اگرچہ بڑی سیاسی رہنما ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے میں واضح طور پر کامیاب نہیں ہوئے، لیکن خلاف توقع نتائج کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کی پہلی فرسٹ منسٹر اور اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کی رہنما نکولا سٹرجن کو ملک بھر میں پزیرائی حاصل ہوئی اور برطانوی سیاست میں خواتین رہنماؤں کا کردار نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

دوسری جانب تبدیلی کی علامت سمجھی جانے والی جماعت یوکپ کے رہنما نائجل فراج جو یورپی یونین کی رکنیت سے دستبرداری کےخواہاں ہیں، حالیہ ٹی وی مباحثوں میں انھیں تارکین وطن کےحوالے سے نسل پرستانہ خیالات کی وجہ سے پسندیدگی حاصل نہیں ہوئی۔

رائےعامہ کےجائزوں کے نتائج :

رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں کے مطابق اس بار برطانوی تاریخ میں سخت ترین انتخابی مقابلے کی توقع ہے۔ مقابلہ کانٹے کا ہوسکتا ہے جس میں دونوں جماعتوں کو اب تک 34 فیصد عوامی حمایت حاصل ہے۔ تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈیوڈ کیمرون کا نقطہ نظر لیبر پارٹی سے معمولی سبقت رکھتا ہے۔

مقامی ٹی وی پر جمعرات کو نشر ہونے والے مباحثے کے بعد ڈیلی مرر پر شائع ہونے والے سروے میں 35 فیصد عوام نے ایڈ ملی بینڈ کو فاتح قرار دیا، نکولا سٹرجن کی حمایت میں 31 فیصد لوگوں نے رائے دی جبکہ اس مباحثے میں دیوڈ کیمرون اور نک کلیگ نے حصہ نہیں لیا۔

12 اپریل کے آئی سی ایم کے ایک دوسرے جائزے میں ٹوریز 39 فیصد اور لیبر کو 33 فیصد پر درجہ بندی کی گئی ہے جبکہ لبرل ڈیمو کریٹس 8 فیصد، یوکپ اور گرین پارٹی کو 7 فیصد عوامی حمایت حاصل ہے۔

عام جائزوں کی اوسط کے مطابق گارڈین نے کنزرویٹیو کو 33.7 فیصد لیبر کو 33.6 فیصد، لبرل ڈیموکریٹ 8 فیصد اور یو کپ کے حق میں 13.3 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔

انتخابی معرکہ کیسا ہوگا ؟

مبصرین حالیہ انتخابات میں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کی خبریں سنا رہے ہیں جن کے مطابق چھوٹی جماعتیں ایس این پی اور یوکپ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے اہمیت اختیار کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بنائے جانے کا امکان ہے۔

تاہم برطانیہ سے علحیدگی کے لیے سرگرم اسکاٹش پارٹی کی رہنما نکول سٹرجن نے موقف ظاہر کر دیا ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کو ترجح دے گی۔

مبصرین کے مطابق نائجل فراج کی یو کے انڈی پینڈنٹ (یو کپ) گذشتہ برس یورپی یونین پارلیمان اور ضمنی الیکشن کی دو نشستیں جیتنے کے بعد برطانوی سیاست میں کافی اہمیت اختیار کر چکی ہے جو خاص طور پر کنزرویٹیو کے الیکٹورل کے لیے خطرہ ہے۔

اسی طرح لیبر کے لیے بھی پارلیمان میں واضح اکثریت یعنی 326 نشستیں جیتنا اور تنہا حکومت سازی کرنے کے امکانات کم ہیں خاص طور پر اسکاٹ لینڈ میں گذشتہ نصف صدی سے تمام انتخابات جیتنے والی لیبر کو اسکاٹش نیشنل پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے سے محروم کر سکتی ہے۔

اسی طرح ویلز میں ویلش جماعت پلائڈ کمری سے سخت مقابلہ رہے گا جبکہ شہروں میں گرین پارٹی لیبر کے ووٹ کم کر سکتی ہے جس سے واضح طور پر ٹوری جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیرون اور ایڈ ملی بینڈ کی مقبولیت :

ایوننگ اسٹینڈرڈ کے ایک پول کے مطابق ایک تہائی برطانوی عوام ملی بینڈ کو ایک قابل رہنما سمجھتی ہے اگرچہ 25 فیصد سمجھتی ہے کہ ملکی بحران میں وہ ایک اچھے قائد ثابت ہو سکتے ہیں۔

ڈیوڈ کیمرون کو دو تہائی لوگوں نے ایک اچھا لیڈر قرار دیا ہے جبکہ 75 فیصد کے مطابق وہ عام لوگوں کےمقابلے میں معاشرے کے مراعات یافتہ طبقے کے بارے میں سوچتے ہیں۔

موری سروے سے انکشاف ہوا کہ لیبر کی مقبولیت میں مارچ سے ایک فیصد اضافہ ہوا ہے جو اب 35 فیصد پر ہے اور ٹوریز سے دو فیصد آگے ہے۔

آخری ٹی وی مباحثے کے بعد عوامی رائے عامہ کے مطابق 10 میں سے 6 ووٹروں نے کہا کہ انھوں نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ 10 میں سے 4 نے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ملی بینڈ کی درجہ بندی میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دوسرے رہنماؤں کی طرح وہ بھی وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کافی پیچھے ہیں لہذا سیاسی فضا میں کافی بے یقینی پائی جاتی ہے لیکن انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے پہلے دونوں رہنماؤں کے پاس کھیلنے کے لیے ابھی بھی کافی وقت بچا ہے۔