غیر ملکی رہنماؤں اور اداروں کی جانب سے قانون پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے یوگینڈا کے صدر نے اسے مغربی ممالک کی جانب سے "اپنی اقدار مسلط کرنے کی کوشش" قرار دیا۔
واشنگٹن —
مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سخت احتجاج اور امداد روکنے کی دھمکیوں کے باوجود یوگینڈا کے صدر نے ہم جنس پرستی کے خلاف نئے قانون پر دستخط کردیے ہیں۔
مجوزہ قانون یوگینڈا کے پارلیمنٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں منظور کیا تھا جس پر امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک، عالمی امدادی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
تاہم مغربی ممالک کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے پیر کو یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے دارالحکومت میں ہونے والی ایک تقریب میں قانون پر دستخط کیے جس کےبعد یہ قانون موثر ہوگیا ہے۔
قانون کے تحت پہلی بار ہم جنس پرستی کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید کی سزا دی جاسکے گی جب کہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے یا ایڈز زدہ ہونے کے باوجود جنسی تعلق قائم کرنے والوں کو عمر قید کی سزا سنائی جاسکے گی۔
نئے قانون کے تحت ہم جنس پرستی میں معاونت کرنے کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے قانون کے مسودے میں ہم جنس پرستی کے بعض کیسوں پر موت کی سزا تجویز کی گئی تھی تاہم مغربی ممالک کے احتجاج پر اسے واپس لے لیا گیا تھا۔
پیر کو منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر موسیوینی کا کہنا تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہم جنس پرستی کسی شخص کا فطری رجحان نہیں بلکہ انتخاب ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض گروہ یوگینڈا کے نوجوانوں کو ہم جنس پرستی میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غیر ملکی رہنماؤں اور اداروں کی جانب سے قانون پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے یوگینڈا کے صدر نے اسے مغربی ممالک کی جانب سے "اپنی اقدار مسلط کرنے کی کوشش" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ افریقی عوام مغرب کے طرزِ زندگی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ، لہذا مغرب کو بھی "ہمارے طرزِ حیات پر خاموش رہنا چاہیے"۔
خیال رہے کہ افریقہ کے 37 ممالک میں ہم جنس پرستی قانونی طور پر ممنوع ہے اور مغربی ممالک کے برعکس براعظم کے بیشتر علاقوں میں اسے ایک ممنوعہ اور ناپسندیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کے صدر براک اوباما نے یوگینڈا میں اس قانون کی منظوری پر "شدید مایوسی" ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے یوگینڈا کے عوام کے حقوق پامال ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
صدر براک اوباما نے اپنے ہم منصب موسیووینی کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے نفاذ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات "مشکل کا شکار" ہوجائیں گے۔
مجوزہ قانون یوگینڈا کے پارلیمنٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں منظور کیا تھا جس پر امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک، عالمی امدادی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
تاہم مغربی ممالک کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے پیر کو یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے دارالحکومت میں ہونے والی ایک تقریب میں قانون پر دستخط کیے جس کےبعد یہ قانون موثر ہوگیا ہے۔
قانون کے تحت پہلی بار ہم جنس پرستی کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید کی سزا دی جاسکے گی جب کہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے یا ایڈز زدہ ہونے کے باوجود جنسی تعلق قائم کرنے والوں کو عمر قید کی سزا سنائی جاسکے گی۔
نئے قانون کے تحت ہم جنس پرستی میں معاونت کرنے کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے قانون کے مسودے میں ہم جنس پرستی کے بعض کیسوں پر موت کی سزا تجویز کی گئی تھی تاہم مغربی ممالک کے احتجاج پر اسے واپس لے لیا گیا تھا۔
پیر کو منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر موسیوینی کا کہنا تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہم جنس پرستی کسی شخص کا فطری رجحان نہیں بلکہ انتخاب ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض گروہ یوگینڈا کے نوجوانوں کو ہم جنس پرستی میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غیر ملکی رہنماؤں اور اداروں کی جانب سے قانون پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے یوگینڈا کے صدر نے اسے مغربی ممالک کی جانب سے "اپنی اقدار مسلط کرنے کی کوشش" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ افریقی عوام مغرب کے طرزِ زندگی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ، لہذا مغرب کو بھی "ہمارے طرزِ حیات پر خاموش رہنا چاہیے"۔
خیال رہے کہ افریقہ کے 37 ممالک میں ہم جنس پرستی قانونی طور پر ممنوع ہے اور مغربی ممالک کے برعکس براعظم کے بیشتر علاقوں میں اسے ایک ممنوعہ اور ناپسندیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کے صدر براک اوباما نے یوگینڈا میں اس قانون کی منظوری پر "شدید مایوسی" ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے یوگینڈا کے عوام کے حقوق پامال ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
صدر براک اوباما نے اپنے ہم منصب موسیووینی کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے نفاذ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات "مشکل کا شکار" ہوجائیں گے۔