تیل کی دولت سے مالا مال ملک متحدہ عرب امارات اپنی بلندو بالا اور جدید ترین عمارتوں، پرکشش تفریحات ، دنیا کی سونے کی سب سے بڑی مارکیٹ کی بنا پر سیاحوں اور کاروباری افراد کے لیے توجہ کا مرکز تو ہے ہی، لیکن اب اس کی نظر آسمانوں پر ہے اور وہ اپنے خلائی سائنس کے شعبے کو تیزی سے ترقی دے رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات( یو اے ای) نے اپنی خلائی مہم کی ابتدا ہی مریخ سے کی ہے اور وہ بہت آگے تک جانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس نے اپنا پہلا راکٹ ’ہوپ‘ 2020 میں مریخ کی جانب روانہ کیا تھا جو فروری 2021 میں اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد سے مریخ کے مدار میں کامیابی سے چکر لگا رہا ہے اور دبئی میں قائم مرکز کو سائنسی معلومات بھیج رہا ہے۔
یو اے ای نے خلائی تحقیق کے لیے اپنا ادارہ 2014 میں قائم کیا تھا۔ مریخ کے مدار میں اپنا خلائی جہاز پہنچانے والا وہ امریکہ، روس، چین اور بھارت کے بعد دنیا کا پانچواں اور عرب دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ وہ دنیا کا دوسرا ایسا ملک ہے جس کا پہلا ہی مریخ مشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔مریخ مشن کا مقصد سرخ سیارے کے ماحول، فضا اور زمین کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنا ہے۔
یو اے ای اپنے دو خلاباز روسی راکٹ کی مدد سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر بھیج چکا ہے ۔ جن میں سے ایک خلاباز سلطان النیادی نے خلا میں چہل قدمی بھی کی تھی۔
دبئی میں قائم یو اے ای کا خلائی ادارہ اپنے خلائی پروگرام کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے ’ اسٹرورائیڈ بیلٹ‘ کے نام سے ایک نئی خلائی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
SEE ALSO: مریخ سے ناسا کی روبوٹک مشین ’ان سائٹ‘ کا آخری پیغام13 برسوں پر محیط اس مہم کے تحت ایک نیا طاقت ور خلائی جہاز تیار کرنے پر تقریباً چھ سال لگیں گے جس میں سیارچوں پر تحقیق اور ان کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے آلات نصب ہوں گے۔ یو اے ای 2028 میں اپنے خلائی جہاز کو اس مہم پر روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو سات سال تک مسلسل سفر میں رہے گا۔
اس مشن کے دوران سات سیارچوں کا مطالعہ کیا جائے گا جو مریخ اور مشتری کے درمیان خلا میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ سیارچے اس لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں وہ ہمارے شمسی نظام میں گردش کرنے والے نہ صرف بڑے سیارچے ہیں بلکہ وہ نظام شمسی کے وجود میں آنے اور زندگی کے شروعات کا کھوج لگانے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
یو اے ای کے خلائی مشن کے ڈائریکٹر محس العوادی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مشن اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مشن ہے جسے ایک بڑی مہم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس مہم کے لیے تیار کیے جانے والا خلائی جہاز مسلسل سات سال تک 33 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا رہے گا اور اس لحاظ سے وہ اس مدت کے دوران پانچ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔ یہ فاصلہ اس سے قبل دبئی کے مریخ پر بھیجے جانے والے خلائی جہاز ہوپ کے سفر کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔
خلائی جہاز کا نام ایم بی آر تجویز کیا گیا ہے جو دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم کے نام کا مخفف ہے۔ یہ نام خلائی سائنس میں ان کی زبردست دلچسپی کے اعتراف میں رکھا گیا ہے۔
اس خلائی مہم کے بارے میں مزید بتایا گیا ہے کہ چھ سیارچوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے بعد اس کی منزل ساتویں اور اس نظام شمسی کے انتہائی اہم سرخ سیارچہ جسٹیٹیا ہو گی جہاں وہ 2034 میں پہنچے گا۔
SEE ALSO: مریخ پر پانی کی موجودگی کے ٹھوس شواہد مل گئےجسٹیٹیا کی سرخ رنگت کی وجہ یہ ہے وہاں تانبا اور نامیاتی مرکبات موجود ہیں۔یہ مرکبات زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ایسے صرف دو سیارچے ہی دریافت ہوئے ہیں جہاں زندگی کے لیے درکار نامیاتی مرکبات کے ساتھ ساتھ پانی کی موجودگی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سرخ سیارچے کے مطالعے سے زمین کے ارتقا اور زندگی کے آغاز کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سرخ سیارچے کا قطر تقریباً 50 کلو میٹر ہے اور اس کا نام قدیم روم کی انصاف کی دیوی جسٹیٹیا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
SEE ALSO: کیا مریخ پر خلائی مخلوق کی موجودگی کے ثبوت مل گئے ہیں؟یو اے ای کا خلائی جہاز ایم بی آر جسٹیٹیا کے مدار میں تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرے گا اور ایک روبوٹک گاڑی سیارچے کی سطح پر اتارے گا جو سیارچے کی سطح اور ماحول کا تجزیہ کر کے معلومات زمینی مرکز کو بھیجے گی۔
یہ روبوٹک گاڑی دبئی کی پرائیویٹ سٹارٹ اپ کمپنیوں کے تعاون سے بنائی جائے گی۔
متحدہ عرب امارات بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو مریخ پر انسان اتارنا اور وہاں اپنی کالونی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دبئی کے خلائی تحقیق کے ادارے کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف 2117 تک مریخ پر اپنی انسانی کالونی قائم کر نا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)