متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مشترکہ تیار کردہ بحری نگرانی کے طیارے کی نمائش

فائل فوٹو

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے پیر کے روز اپنے پہلے مشترکہ طور پر بنائے گئے بحری نگرانی کے طیارے کی نمائش کی جسے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا سکے گا۔ اس طیارے کی تیاری خلیجی خطے میں سمندری خطرات میں اضافے کے بعد ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔

اس جہاز میں جدید سینسرز اور امیجنگ سسٹم نصب ہیں اور اسے نگرانی، جاسوسی اور بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس جہاز کو ابوظہبی کے ساحل پر نیول ڈیفنس اینڈ میری ٹائم سیکیورٹی کے نام سے ہونے والی نمائش کے دوران پیش کیا گیا۔

سطح سمندر پر بغیر پائلٹ کے چلائے جانے والا یہ جہاز اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز اور اماراتی دفاعی کنسورشیم"ایج " کی تخلیق ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مصروف خلیجی بحری راستوں کو برسوں سے میزائل اور ڈرون حملوں کا سامنا رہا ہے جس کا الزام پڑوسی ملک ایران پر لگایا جاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امارات اور اسرائیل کے کاروباری حلقوں کے تعلقات

اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے بحری پروگرام کےسربراہ اورین گوٹر نے کہا کہ ساحلی پٹی کو محفوظ بنانے اور بارودی سرنگوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں کمپنیاں پہلی بار ایک باہمی منصوبے کا مظاہرہ کر رہی ہیں جو دونوں کی صلاحیتوں اور طاقتوں کو ظاہر کرتا ہے۔

گوٹر نے، جو اسرائیلی بحریہ کے کپتان رہ چکے ہیں، کہا کہ جہازوں کی یہ قسم "یہاں علاقے میں موجود خطرات" کا مقابلہ کرے گی لیکن اس کا مقصد انہیں بیرون ملک تعینات کرنا بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئی اے آئی، خلیجی ملک امارات کے ساتھ فضائی دفاع میں تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ وہ امیر خلیجی ریاست کی بحری صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے سن 2020 میں امریکی ثالثی کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے بعد سے دفاعی خریداری سمیت اپنی فوجی شراکت داری کو مستقل طور پر گہرا کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟

گزشتہ سال جنوری میں اسرائیل کی دفاعی الیکٹرانکس کمپنی ایلبٹ سسٹمز نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں اس کی ذیلی کمپنی کو اماراتی فضائیہ کو نظام کی فراہمی کے لیے تقریباً 53 ملین ڈالر کا معاہدہ دیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں، اماراتی اور اسرائیلی دفاعی کمپنیاں آٹومیٹک انٹی ڈرونز یعنی ڈرون سسٹم کا مقابلہ کرنے کے لیے نظام بھی بنا رہی ہیں۔

انٹیلی جنس خطرات پر کام کرنے والی فرم ویریسک میپل کرافٹ کے ماہر ٹوربجورن سولٹوڈٹ کا کہنا ہے کہ ایران سے سمندری خطرات کا مقابلہ کرنا متحدہ عرب امارات-اسرائیل شراکت داری کے لیے توجہ کا ایک شعبہ ہے۔

سولٹ ویڈٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ "سیکیورٹی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعاون کا ایک قدرتی شعبہ ہے۔"

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیل اور امارات کے تعلقات امریکہ کے لیے کتنے اہم؟

انہوں نے کہا، "خلیج فارس اور خلیج عمان میں جہاز رانی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنا ایک ترجیح ہو گی کیونکہ ایرانی حمایت یافتہ ڈرون اور میزائل حملوں میں اسرائیلی اور اماراتی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"

خیال رہے کہ اتوار کے روز اسرائیل نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے عمان کے ساحل پر اسرائیل سے منسلک ایک ٹینکر پر حملہ کیا جس سے معمولی نقصان ہوا۔ اس سال یہ اس طرح کا دوسرا الزام تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو بحال کرنے کے لیے تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات نے خطے میں ایرانی پشت پناہی میں حملوں کے خطرے کی تجدید کردی ہے۔

اس خبر کے لیے تفصیلات اے ایف پی سے حاصل کی گئی ہیں۔