مودی کے لیے امارات کے اعزاز پر پاکستان میں نئی بحث کا آغاز

فائل فوٹو

پاکستان میں حالیہ دنوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کی طرف سے اعلیٰ ترین سول اعزاز ’آرڈر آف زید‘ دیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید اعتراض کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے باوجود عرب امارات کے لیے کوئی سخت لہجہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ حکومت کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بھارت سے اپنے تعلقات ہیں اور پاکستان سے اپنے تعلقات ہیں۔ تاہم پاکستان میں عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر حالیہ دنوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر کی صورت حال میں عرب امارات کی طرف سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو امارات کا سب سے بڑا سول اعزاز ’ آرڈر آف زید‘ دینے پر پاکستان میں بعض افراد کی طرف سے بھارت کی حمایت اور پاکستانی مؤقف کی نفی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عموماً عرب ممالک کے لیے ہمیشہ احترام کا رویہ رکھا جاتا ہے اور ان ممالک کی طرف سے ہزاروں پاکستانیوں کو ڈیپورٹ کیے جانے اور جیلوں میں بند رکھنے کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن بھارتی وزیراعظم کو ایسے اعزاز دینے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اس بارے میں ٹوئیٹ کیا کہ پاکستان میں ایک طبقہ پاکستان سے زیادہ عرب اور ایران کیلئے فکرمند رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی سے ان ممالک کے تعلق میں ان لوگوں کیلئے سبق ہے کہ اپنی قوم سے بڑھ کر کچھ نہیں، اُمہ کے بجائے آپ کے ملک کی سرحدیں مقدس ہیں۔

اس حوالے سے حکومت کا مؤقف ابھی بھی امارات کی حمایت میں ہے۔ شاہ محمود کہتے ہیں کہ امارات کے ساتھ ہمارے اپنے تعلقات ہیں اور بھارت کے اپنے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند روز میں ان کی متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کا امکان ہے جس میں وہ اس حوالے سے معاملہ اٹھائیں گے۔

کشمیر کی صورتحال پر پاکستان کو عرب ممالک کی طرف سے حوصلہ افزا ردعمل نہیں ملا۔ سلامتی کونسل میں موجود دو ممالک کویت اور انڈونیشیا نے بھی مکمل طور پر پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ سعودی عرب، قطر اور بحرین نے بھی معاملات کو افہام و تفہیم اور بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ عرب امارات نے صرف میڈل ہی نہیں دیا بلکہ انڈیا کے مہاتما گاندھی کی پیدائش کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کی مناسبت سے ان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا ہے۔

اس صورتحال پر سابق سفارتکار اور امارات میں سابق پاکستان سفیر آصف درانی کہتے ہیں کہ ملکوں کے معاملات جذبات اور مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوتے اور متحدہ عرب امارات کے حوالے سے جذباتی باتوں کے بجائے حقیقت کو دیکھنا ہو گا۔ جہاں تک میڈل دیے جانے کا معاملہ ہے تو وہ آج یا کل نہیں بلکہ عرصہ پہلے کیا گیا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسیم حجازی کے ناولوں کے بجائے حقیقت کے مطابق تمام معاملات کو دیکھنا ہو گا۔

سوشل میڈیا پر ایک دل جلے پاکستانی نے تو یہاں تک مشورہ دیدیا کہ پاکستان عرب ممالک کو دکھانے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کر لے۔

پاکستان کی مشکل معاشی صورتحال بھی عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں آڑے آرہی ہے۔ اب تک پاکستانی مؤقف کو او آئی سی کی کشمیر کمیٹی کی طرف سے حمایت ملی لیکن او آئی سی کا کوئی بھی عملی قدم دیکھنے میں نہیں آیا۔ او آئی سی کی طرف سے صرف کشمیریوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کی بات کی گئی لیکن حل کسی کے پاس نہیں۔ ایسے میں جلد معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات کیا سرد مہری کا شکار ہوں گے یا پاکستان اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ امہ سے زیادہ اہمیت اس وقت معیشت کی ہے۔