'اسرائیل مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو ضم کر سکتا ہے'

امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین (فائل فوٹو)

اسرائیل میں امریکہ کے سفیر نے کہا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے کچھ علاقوں کو ضم کر سکتا ہے جسے فلسطینی اپنی آزاد ریاست میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اپریل میں انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں قائم یہودی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے اسرائیل کے اس ممکنہ اقدام پر امریکی ردعمل بتانے سے گریز کیا۔ انھوں نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ کتنا علاقہ کن شرائط پر اسرائیل میں ضم کیا جاسکتا ہے۔

مغربی کنارے کو اقوام متحدہ مقبوضہ علاقہ شمار کرتی ہے، اس علاقے پر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے قبضہ کر کے یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی تھی۔

امریکی سفیر نے کہا کہ ہم کچھ معاملات سمجھنا چاہتے ہیں اس سے قبل کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر کے داماد تنازعے کے حل کے لیے تجاویز پر کام کر رہے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تجاویز کو 'ڈیل آف دی سینچری' قرار دیا ہے۔

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو سارے علاقے کی بجائے ایک محدود علاقے کو اپنے پاس رکھنے کا حق ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے سیکورٹی کے لیے امریکہ نے اپنی افواج جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا میں تعینات کی ہیں۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ فریڈ مین نے مغربی کنارے کے کس علاقے کی بات کی ہے اور کیا اسرائیل کی طرف سے یہ علاقے اپنے پاس رکھنا اس مجوزہ منصوبہ کا حصہ ہے یا نہیں جس میں علاقے کے تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔

ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کو رواں ماہ بحرین میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں منظر عام پر لایا جائے گا۔ تاہم 17 ستمبر کو اسرائیل میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے یہ معاملہ التوا کا شکار ہو سکتا ہے۔

فریڈمین کے انٹرویو پر اپنے ردعمل میں فلسطییوں کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب اریکات نے ٹوئٹ میں کہا کہ مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کرنا اسرائیل کا نظریہ ہے، یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو گا۔

امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد فلسطینی قیادت نے ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فلسطینی قیادت یروشلم کے مشرقی حصے کو اپنا دارلحکومت بنانے کی خواہاں ہے جس پر عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے مارچ میں گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کر لی تھی۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران گولان کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا، تاہم اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپریل میں کہا تھا کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی کی خود مختاری تسلیم کیے جانے کے بعد مغربی کنارے کی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنا بھی ممکن ہو گیا ہے تاہم یہ ایک بتدریج عمل ہو گا جس میں امریکہ کی رضامندی ضروری ہو گی۔

اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے اس معاملے پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

ایک امریکہ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مغربی علاقے کے کسی حصے کو بھی یکطرفہ طور پر اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق منصوبہ امریکہ کو پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ معاملہ زیر بحث ہے۔