یمن : دو سیاسی جماعتوں کا مذاکرات سے واک آؤٹ

مبصرین کے مطابق حوثی باغیوں کی ہٹ دھرمی اور اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضد کے باعث عبوری سیاسی انتظام پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔

یمن کے سیاسی بحران کے حل کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے مابین اقوامِ متحدہ کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات پیر کو دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔

لیکن حزبِ اختلاف کی دو جماعتوں – اسلام پسند قبائلیوں کی نمائندہ جماعت 'اصلاح' اور عرب قوم پرست 'ناصرسٹ' نے مذاکرات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے دارالحکومت پر قابض حوثی باغیوں کے اجلاس میں شریک نمائندوں پر مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

صنعا کے ایک ہوٹل میں ہونے والے مذاکرات کا مقصد حوثی باغیوں کے قبضے کے ردِ عمل میں صدر ہادی منصور اور ان کی کابینہ کے مستعفی ہونے سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو دور کرنا ہے۔

شیعہ باغی گزشتہ سال ستمبر سے دارالحکومت کے اہم مقامات پر قابض ہیں اور حکومت میں زیادہ اختیارات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے باغیوں نے پارلیمان کو تحلیل کرنے کے بعد حکومت کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا جس کے خلاف یمن کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

یمن کی بیشتر سیاسی جماعتیں باغیوں کی پیش قدمی کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن حوثی باغیوں کی ہٹ دھرمی اور اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضد کے باعث عبوری سیاسی انتظام پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے گزشتہ ہفتے بھی مذاکرات کیے تھے جو جمعرات کو تعطل کا شکار ہونے کے بعد ختم ہوگئے تھے۔

پیر کو مذاکرات کا سلسلہ بحال ہونے کے بعد بات چیت میں شریک سیاسی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے جمال بینو مار نے کہا کہ یمن ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور درست راستے کے انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں کو دانش مندی اور حکمت سے کام لینا ہوگا۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے حوثی باغیوں کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے عمل پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے مغرب کے حمایت یافتہ صدر ہادی منصور کی حکومت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو مذاکرات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعت 'ناصرسٹ' کے سربراہ عبداللہ النعمان نے دوبارہ بات چیت کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔

حزبِ اختلاف کے رہنما نے الزام عائد کیا ہے کہ حوثی باغی ان لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جنہوں نے باغیوں کے حکومت سنبھالنے کے ماورائے آئین اقدام کی مخالفت کی ہے۔

یمن کے پڑوسی خلیجی ملکوں نے بھی پارلیمان کی تحلیل اور باغیوں کے اقتدار پر قبضے کو "قطعی ناقابلِ قبول" قرار دیتے ہوئے اسے یمن کے استحکام اور سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

تاہم باغیوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ یمن کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے دارالحکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا ہے۔