پاکستان کے صوبہ سندھ میں دہشت گردوں کی مبینہ مالی معاونت کے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے مزید دو عدالتوں کو ان مقدمات کی سماعت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ملک کو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالنے اور ٹاسک فورس کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جائے گا۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ ڈاکٹر فیض شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سندھ میں دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق مقدمات کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ تحقیقاتی اداروں نے مزید کئی کیسز بھی تیار کرلیے ہیں جو جلد ہی عدالتوں کو بھیجے جارہے ہیں۔
اُن کے بقول ایسے میں مقدمات کی تیزی سے شنوائی ممکن بنانے کے لیے محکمہ داخلہ سندھ نے دو مزید عدالتوں کو مختص کردیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اس قسم کے مقدمات کی سماعت کے لیے صوبے میں دو عدالتیں مختص تھیں جن میں دو درجن کے قریب مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔
ڈاکٹر فیض شاہ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے انتہائی باریک بینی سے شواہد کو پرکھا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے مالی معاملات اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والی رقوم کا سراغ لگانے، ایسے ملزمان کے خلاف شواہد کی چھان بین اور انہیں عدالت میں ثابت کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لہذٰا حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ ان عدالتوں پر مزید مقدمات کا بوجھ نہ ہو اور وہ اپنا کام آسانی اور سہولت کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ 'ٹیرر فنانسنگ' سے متعلق کیسز کی سماعت کے لیے عدالتوں کو مختص کیے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوا ہے۔ لیکن کئی مقدمات ان عدالتوں میں آخری مراحل میں داخل بھی ہو چکے ہیں۔ بعض میں سزائیں سنائی جاچکی ہیں جسے ہائی کورٹ کے ایپلیٹ بینچ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
حکام کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جہاں تفتیشی افسران کی مناسب تربیت پر زور دیا جارہا ہے۔ وہیں تفتیش کے طریقوں کو مزید وسعت دینے کے لیے وسائل کی فراہمی میں بھی پہلے سے کافی بہتری آئی ہے۔
صوبہ سندھ میں کالعدم تنظیموں طالبان، القاعدہ، داعش، سپاہ صحابہ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن، لشکر جھنگوی اور جماعت الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے خلاف کیسز زیرِ سماعت ہیں۔
امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی کراچی میں جائیداد کی نشاندہی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ان کے سہولت کاروں کے خلاف جعل سازی کا کیس بھی دائر کیا گیا تھا۔
حال ہی میں عدالت نے ملا منصور کے فرنٹ مین کی جانب سے خریدی گئی جائیداد سیل کرنے کے ساتھ اسے سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کی شرائط کیا ہیں؟
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے سے متعلق ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کو اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے مقدمات میں پیشرفت دکھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
پاکستان کو غیر قانونی دولت کا سراغ لگانے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی اوراس سے جڑی دیگر سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھ کر ان کا خاتمہ کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔
ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کے خلاف معاشی پابندیوں کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
اس کے علاوہ کالعدم تنظیموں کو فنڈز اکھٹا کرنے، ان تنظیموں کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے منجمد کرنے اور فوجداری مقدمات میں سزائیں دینے کا بھی کہا گیا تھا۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے بعض اقدامات کو سراہتے ہوئے ایکشن پلان کے بعض نکات پر عمل نہ ہونے پر تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا۔
ٹاسک فورس کے مطابق پاکستان نے 27 میں سے 14 نکات پر بڑی حد تک عمل تو کیا۔ لیکن باقی ماندہ نکات پر عمل درآمد کے لیے جون 2020 تک کا وقت دیا تھا۔ لیکن کرونا وائرس کے باعث اس میں بھی مزید توسیع کر دی گئی تھی۔
بعض قانونی اور معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد نہ کیا تو ٹاسک فورس رکن ممالک کے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے روک سکتی ہے۔ جس کا لامحالہ منفی اثر پاکستانی معیشت پر پڑے گا۔
ماہرین کے بقول یہی وجہ ہے کہ حکومت ٹیرر فنانسنگ سے متعلق مقدمات تیزی سے نمٹانے کے لیے مزید عدالتیں مختص کر رہی ہے۔