قطر میں سیکیورٹی فورسز نے ناروے کے سرکاری ٹیلی ویژن (این آر کے) سے تعلق رکھنے والے دو صحافیوں کو 30 گھنٹے تک زیر حراست رکھا گیا، اور اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر ان کے کوریج کی 'فٹیج' کو حذف کر دیا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے بدھ کو حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ناروے کے دو صحافی تارکین وطن پر مشتمل مزدور بستی پر ایک رپورٹ تیار کرنے کی غرض سے ایک ایسے موقع پر دوحہ آئے ہوئے تھے، جب کہ 2022ء میں فٹ بال کے بین الاقوامی ادارے (ایف آئی ایف اے) کے توسط سے عالمی کپ کے مقابلے منعقد ہوں گے۔
اطلاعات کے مطابق، قطر کی حکومت نے ناروے کے صحافیوں، ہالور ایکلینڈ اور لقمان قربانی، پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر بغیر اجازت ایک نجی املاک کی حدود پھلانگنے کے مرتکب ہوئے، اور اجازت حاصل کیے بغیر وہاں کی فلم بندی کی۔
رہائی کے بعد دونوں صحافی بدھ کی علی الصبح ناروے واپس پہنچ گئے ہیں۔
ناروے کے وزیر اعظم، جوناس گرستور نے ایک بیان میں اس عمل کو ''ناقابل قبول'' قرار دیا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک بیان میں گرستور نے بتایا کہ ''جمہوری نظام کے لیے آزاد پریس کا وجود ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس واقعہ سے صحافیوں کو ملنے والے 'نوبیل پیس پرائز' کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ میں اس بات پر خوش ہوں کہ ہالور ایکلینڈ اور لقمان قربانی کو اب رہا کر دیا گیا ہے''۔
بعد ازاں، ناروے کے خبررساں ادارے، 'این ٹی بی' نے اطلاع دی ہے کہ اس معاملے پر قطر کے سفیر کو اوسلو میں ناروے کی وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔
عالمی کپ سے ایک سال قبل، یہ گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ قطر کی مطلق العنان حکومت کس قدر حساس ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان صحافیوں نے اپنی براہ راست رپورٹ میں تارکین وطن مزدوروں کے حالاتِ کار کی رپورٹ دکھائی تھی جس پر انھیں گرفتار کیا گیا۔
صحافیوں نے ناروے کے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انھیں اپنے پیشہ وارانہ سامان کے ساتھ واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ ناروے کی صحافیوں کی تنظیم اور ملک کی فٹ بال فیڈریشن نے صحافیوں کی گرفتاری پر تنقید کی ہے۔
اوسلو ایئرپورٹ پر ہالور ایکلینڈ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ''ناروے کی سرزمین پر واپس آنا خوشی کا باعث ہے۔ ہمارے لیے پچھلے چند روز آزمائش کی مشکل گھڑی تھی، لیکن ہمیں بخوبی علم ہے کہ بہت سے افراد ہماری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے''۔
بقول ان کے، ''ہمیں 32 گھنٹے تک زیر حراست رکھا گیا''۔
ایک بیان میں ناروے کی وزیر خارجہ انیکن ہفتاد نے کہا ہے کہ ''انھیں پیشہ وارانہ صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران گرفتار کیا گیا''۔
بقول ان کے، ''آزادی اظہار جمہوریت کے پروان چڑھنے کا اہم ستون ہوتا ہے اور دیگر انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے یہ صحافتی کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے''۔
ایک بیان میں، قطر کی حکومت نے کہا ہے کہ ملک کے ایک صنعتی علاقے میں واقع ایک نجی املاک کے مالک کی شکایت پر یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، جہاں یہ مزدور آبادی واقع ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایکلینڈ نے فلم بندی کے اجازت نامے کے حصول کی درخواست دی تھی، لیکن حکام نے ابھی اس کی باضابطہ اجازت نہیں دی کہ وہ فلم بندی کے لیے اس مقام پر پہنچ گئے۔
خلیج عرب کی دیگر ریاستوں کی طرح، قطر میں سخت گیر طرز کی حکمرانی ہے، جہاں صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے پیشگی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
قطری حکومت نے کہا ہے کہ ''ہر ایک ملک کی طرح، یہاں پر بھی قطری قانون کے مطابق بغیر اجازت کے نجی املاک کی حدود میں داخل ہونا خلاف قانون ہے، اور ان صحافیوں کو فلم بندی کرنے سے پہلے ان ضوابط کا بخوبی علم تھا''۔ بیان میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ قطری قانون کے مطابق، ''ناجائز طور پر فلم بند کی گئی فوٹیج کو 'ڈیلیٹ' کیا گیا''۔
خلیج فارس کے اہم محل وقوع کے مالک قطر میں امریکی ملٹری کی سینٹرل کمان کا علاقائی صدر دفتر ہے۔ آئندہ سال منعقد ہونے والے فٹ بال ٹورنامنٹ کے حقوق ملنے کے بعد، تارکین وطن مزدور فورس سے روا رکھے جانے والے رویے پر قطر کو سخت نوعیت کی نگرانی کا سامنا رہا ہے۔
[اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]