امریکہ میں اسقاطِ حمل کے لیے دوا کے استعمال سے متعلق دو وفاقی ججز کے متضاد فیصلوں کے بعد دوا کی دستیابی کے بارے میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
ملک میں اسقاطِ حمل کے لیے مفا پرسٹون کی ٹیبلٹس 20 برس سے زیادہ عرصے سے وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔خوراک اور ادویات کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے سن 2000 میں اس دوا کی منظوری دی تھی۔
سابق صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ امریکی ریاست ٹیکساس کے ڈسٹرکٹ جج میتھیو کاکسمارک نے جمعے کو ایک فیصلے میں مفا پرسٹون کا استعمال روکنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری جانب سابق صدر اوباما کے مقرر کردہ ریاست واشنگٹن کے ڈسٹرکٹ جج تھامس او رائس نے اس کے برعکس دوا کی دستیابی یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
جج تھامس کے حکم نامے میں حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ اُن 17 ریاستوں میں اس ٹیبلٹ کی دستیابی یقینی بنائیں جہاں ڈیمو کریٹس نے اس کا استعمال جاری رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 'رو بنام ویڈ' کیس کے تاریخی فیصلے میں اسقاطِ حمل کا آئینی حق ختم کر دیا تھا جس کے تحت اس گولی کی دستیابی محدود کر دی گئی تھی۔
ان حالات میں تازہ ترین عدالتی احکامات سے اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ ٹیکساس کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی جب کہ واشنگٹن کے جج کے فیصلے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: اسقاطِ حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، امریکہ میں سماجی اور سیاسی رد عملاسقاطِ حمل کی سہولیات فراہم کرنے والوں نے ٹیکساس عدالت کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
ناقدین میں خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیم '"ہول ویمن ہیلتھ" بھی شامل ہے جو پانچ ریاستوں میں چھ کلینک چلا رہی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ وہ اس حکم کا جائزہ لے گی تاہم آئندہ ہفتے تک دوا کی فراہمی جاری رکھے گی۔
خیال رہے کہ امریکہ میں گزشتہ 23 برسوں سے لاکھوں خواتین مفا پرسٹون استعمال کر رہی ہیں اور اسے اسقاطِ حمل کا سب سے بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسقاطِ حمل کے مخالف گروپس نے ٹیکساس میں عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ مفا پرسٹون کے بارے میں عدالتی حکم عشروں سے جاری طریقہ کار کو تبدیل کر سکتا ہے جس سے سیاسی گروپوں کی جانب سے ایف ڈی اے کی متنازع ادویات اور ویکسینز کی منظوری کو ختم کرنے کا ماحول بن سکتا ہے۔