پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر 'لاپتا' ہونے والے جامعہ کراچی کے دو طلبہ گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔دونوں طلبہ کی واپسی پیر کو سندھ اسمبلی کے باہر ہونے والے دھرنے کے بعد ہوئی ہے۔
صوبۂ بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ طالب علم دودا الٰہی اور گمشاد بلوچ گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر لاپتا ہو گئے تھے۔ دونوں جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ میں زیرِ تعلیم تھے۔دونوں طلبہ کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ان دونوں کو سات جون کی صبح پانچ بجے پولیس کے محکمۂ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) کے اہل کار گمشاد کے گھر سے اپنے ساتھ لے گئے۔
اہل خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں دوست گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب واقع گھر میں امتحانات کی تیاری کر رہے تھے۔ان دونوں کو ایک ہفتے تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔
اس بارے میں سندھ پولیس نے کسی بھی قسم کا مؤقف دینے سے گریز کیا ہے۔
ان دونوں طلبہ کو مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے پر اہل خانہ سراپا احتجاج تھے اور انہوں نے پیر کی رات سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دیا۔ دھرنے میں طلبہ کےخاندان کے افراد کے علاوہ دوست اور دیگر افراد بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیے کراچی یونیورسٹی کے تین بلوچ طالب علم ’لاپتا‘ ہو گئےپولیس نے دھرنے کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا اور انہیں وہاں سے زبردستی ہٹانے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دھرنے میں بیٹھی خواتین کو پولیس نے دھکے دیے، انہیں زدو کوب کیا اور انہیں زبردستی گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائلز میں ڈال کر تھانے منتقل کردیا گیا۔
Baloch women being dragged on the streets of Karachi for demanding release of missing persons. pic.twitter.com/66ujzp1G9o
— The Balochistan Post - English (@TBPEnglish) June 13, 2022
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رکن آمنہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیر کے احتجاج سے قبل اتوار کو پولیس حکام نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے ساتھ سی ٹی ڈی حکام مذاکرات کریں گے اور ان کی بات سنی جائے گی،تاہم پیر کو ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ دوبارہ احتجاج پر مجبور ہوئے اور سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں احتجاجی دھرنے کی اجازت نہیں دی اور شرکا کے ساتھ بدسلوکی کی۔ان کا کہنا تھا کہ دھرنے میں خواتین بھی شامل تھیں۔
ادھر انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں کی جانب سے احتجاج کرنے والی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی مذمت کی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے پیاروں کی خیریت کے بارے میں حکام سے جواب طلب کرنے والے خاندانوں پر کریک ڈاؤن جبری طور پر گمشدہ کرنے کے عمل کو مزید گھناؤنا بناتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرے، جنہوں نے مظاہرین پر طاقت کا بے جا استعمال کیا۔
Violently cracking down on families demanding answers to the whereabouts of their loved ones only compounds the cruelty of the heinous practice of enforced disappearances.
— Amnesty International South Asia (@amnestysasia) June 14, 2022
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ کچھ بلوچ مظاہرین نے ریڈ زون میں احتجاج کیا۔
ان کے بقول پولیس نے کچھ افراد کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا۔ تاہم انہیں سیکیورٹی ضمانت جمع کرانے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
There was a protest in Red Zone by some baloch protestors. Police arrested some protestors in violating section 144. However They we’re released after seeking security bond. It’s requested for everyone that kindly avoid violation of law so that law in orders may be ensured.
— Sharjeel Inam Memon (@sharjeelinam) June 13, 2022
ادھر آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب منہاس کی سربراہی میں ایک کمیشی تشکیل دے دی ہے جو صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے والوں بالخصوص خواتین پر طاقت کے بے جا استعمال کی تحقیقات کرے گی۔
کمیٹی اس بات کا بھی تعین کرے گی کہ واقعے کے حقائق کیا تھے۔اس کے علاوہ غیر قانونی حراست اور بدسلوکی کے الزامات کی بھی تحقیقات کی جائے گی جب کہ کمیٹی اس سلسلے میں سفارشات بھی مرتب کرے گی۔
دودا الٰہی اور گمشاد بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی میں مقیم ہیں۔ آمنہ بلوچ کہتی ہیں کہ صرف یہ دو طلبہ ہی نہیں بلکہ ایسے کئی بلوچ اور بھی ہیں جو حالیہ دنوں میں کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہوئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان لوگوں میں 29 اپریل کو حراست میں لیے گئے سعید احمد بھی شامل ہیں جن کا تعلق تربت کے علاقے سے ہے اور وہ حال ہی میں روس سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ان کے علاوہ گوادر کے رہائشی اور وفاقی جامعہ اردو میں مطالعہ پاکستان کے طالب علم شاد بلوچ کو بھی 2 جون کو ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا جن کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کے کنفیوشیش انسٹیٹیوٹ میں طلبہ کو چینی زبان اور ثقافت کی تعلیم دینے والے اساتذہ اور پاکستانی ڈرائیور کی26 اپریل کے خود کش دھماکے میں ہلاکت کے بعد بلوچ طلبہ سمیت کئی شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تفتیش کے لیے اٹھایا گیا اور ایسے واقعات میں تسلسل کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
کراچی میں صحافی کا مبینہ اغوا اور پھر واپسی
دوسری جانب کراچی کے علاقے ناظم آباد سے نجی ٹی وی چینل' آج نیوز' سے وابستہ اسائنمنٹ ایڈیٹر نفیس نعیم کو مبینہ طور پر اغوا کرلیا گیا جس کےچند گھنٹوں بعد وہ واپس گھر پہنچ گئے۔
اس واقعے کی سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس وردی میں ملبوس کچھ افراد نفیس نعیم کو ایک ڈبل کیبن گاڑی میں بٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
نفیس نعیم کے قریبی ساتھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نفیس بطور اسائنمنٹ ایڈیٹر کام کرنے کے ساتھ مختلف اداروں کے لیے ریسرچ سے بھی وابستہ ہیں اور وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) سمیت مختلف موضوعات پر ملکی اور غیر ملکی تحقیقاتی اداروں کے لیے معلومات اکٹھی کرتے تھے۔
آج نیوز کے سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر نفیس نعیم گھر پہنچ گئے#ReleaseNafeesNaeem #AajNews pic.twitter.com/yVv8qr33GD
— Aaj News (@Aaj_Urdu) June 14, 2022
قریبی ساتھی کے مطابق نفیس کے اہل خانہ کو شک ہے کہ انہیں کسی ایسی سرگرمی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے لے کر گئے تھے۔
علاوہ ازیں کراچی یونین آف جرنلسٹس نےنفیس نعیم کو مبینہ طور پر گرفتار کرکے لاپتا کرنے کی مذمت کی ہے۔ کے یو جے کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ نفیس نعیم کو با وردی اہل کاروں نے اٹھایا اور بعد ازاں لاپتا کردیا جب کہ پولیس نفیس نعیم کی گرفتاری سے لاتعلقی ظاہر کر رہی ہے۔
صحافیوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے دباؤ کے بعد پولیس نے گلبہار تھانے میں واقعے کا مقدمہ درج کیا، جس کےچند گھنٹوں بعد نفیس نعیم گھر واپس پہنچ گئے۔