طالبان نے ان دو افغان صحافیوں کو رہا کر دیا ہے جنہیں گزشتہ روز کابل سے تحویل میں لیا گیا تھا۔ تاہم، دو ہفتے قبل لا پتہ ہونے والی خواتین کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔
آریانہ ٹی وی کے رپورٹروں وارث حسرت اور اسلم حجاب کو طالبان فورسز نے پیر کی سہہ پہر ایسے میں اٹھا لیا جب وہ دارلحکومت میں کھانا کھانے کے لیے باہر نکلے تھے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی مشن ( UNAMA) نے بدھ کو بتایا ہے دونوں صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
Taliban release two @ArianaNews_ reporters that they detained without acknowledging responsibility. The whereabouts of women activists & others who went missing two weeks ago remain unknown. Urgent action by Taliban needed to stop abductions & secure freedom for the disappeared. https://t.co/jlWSTeuIMm
— UNAMA News (@UNAMAnews) February 2, 2022
اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ شہریوں کے اغوا یا ان کو حراست میں لیے جانے کے اقدامات فوری طور پر بند ہونے چاہیں اور لا پتہ ہونے والے شہریوں کےحق آزادی رائے کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی منگل کے روز اس بات پر زور دیا تھا کہ اغوا ہونے والے صحافیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔
SEE ALSO: تشدد، گرفتاریاں اور غیر واضح پالیسی، افغان صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہوچکیانسانی حقوق کے عالمی ادارے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ'' آریانہ نیوز کے دو صحافیوں کی طالبان کے ہاتھوں غیر قانونی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آزادی صحافت پر اس طرح کے حملے آزادی اظہار کے لیے شدید خطرہ ہیں‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان پر زور دیں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں اور یہ کہ ان کو اس ضمن میں جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
دو سرگرم خواتین دو ہفتے قبل اس وقت لا پتہ ہو گئی تھیں جب انہوں نے کابل کے اندر ایک احتجاجی ریلی میں شرکت کی تھی۔ اس احتجاج میں خواتین کے حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا اور خواتین کے حجاب پہننے سے متعلق طالبان کے احکامات کی مذمت کی گئی تھی۔اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے بتایا ہے کہ ان خواتین کو کہاں رکھا گیا ہے اس بارے میں تاحال کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔
UN applauds @ajsc’s outstanding work on #FreeMedia & #JournalistSafety. Encouraged by Taliban spox @Zabehulah_M33 commitment today to re-establish joint media & de facto authority commission. Time to end intimidation & atmosphere of fear stalking Afghanistan’s media landscape. https://t.co/uY8nRgVH1S
— UNAMA News (@UNAMAnews) February 2, 2022
اسلامی عسکریت پسند گروپ نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں پر حملے کیے ہیں، حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو طاقت استعمال کر کے منتشر کیا ہے اور ایسے متعدد صحافیوں کو ایذا پہنچائی ہے جنہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر ہونے والے ان مظاہروں کی کوریج کی ہے۔
طالبان نے گزشتہ ہفتے افغان میڈیا ایڈووکیسی گروپ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا تھا جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
بین الاقوامی برادری نے ابھی تک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور شرط عائد کی ہے کہ طالبان حکومت اس وقت تک تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک وہ انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتے اور ایک ایسی حکومت قائم نہیں کرتے جو افغانستان کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتی ہو۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں اور تازہ ترین اقدام کے طور پر بدھ کے روز افغانستان میں بعض سرکاری یونیورسٹیان کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے جہاں طلباء اور طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔ تاہم ہائی سکول کی حد تک لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔