سیالکوٹ پولیس نے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل میں ملوث 26 ملزمان کا عدالت سے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ ایک ملزم کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ قوت گویائی سے محروم ہے۔
پیر کو سانحہ سیالکوٹ کیس کے ملزمان کو پولیس کی بھاری نفری اور سخت سیکیورٹی حصار میں سیالکوٹ سے گوجرانوالہ کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان سے سری لنکن شہری کے قتل اور اس کے محرکات جاننے کے لیے پوچھ گچھ کرنی ہے جس کے لیے انہیں 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا جائے۔
تفتیشی افسر کا عدالت میں کہنا تھا کہ آلۂ قتل میں آہنی راڈز اور رسے شامل ہیں جن سے مقتول پریانتھا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور رسوں کی مدد سے اسے کھینچا گیا۔
تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ مقتول کی لاش کو آگ لگانے کے لیے ایندھن اور دیگر اشیا کا بندوبست کہاں سے کیا گیا اس حوالے سے بھی تفتیش کرنی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جج نتاشہ نسیم سپرا نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے تمام 26 ملزمان کو 15 روز کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ 21 دسمبر کو ہونے والی اگلی سماعت پر تفتیش مکمل کر کے ملزمان کا چالان پیش کیا جائے۔
SEE ALSO: سری لنکن شہری کا توہینِ مذہب کے الزام پر قتل: پولیس سیالکوٹ میں ہجوم کو روکنے میں ناکام کیوں رہی؟واضح رہے کہ تین دسمبر کو ملبوسات بنانے والی ایک فیکٹری راجکو انڈسٹریز کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر تشدد کیا تھا اور انہیں ہلاک کر کے ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
پریانتھا کے مقدمۂ قتل کی سماعت کے دوران جب عدالت کی طرف سے ملزمان کی حاضری لگائی جا رہی تھی اور ملزمان کے نام باری باری پکارے جا رہے تھے تو ایک ملزم خاموش رہا، جس پر خاتون جج کے استفسار پر پولیس نے بتایا کہ ملزم شعیب پیدائشی طور پر قوت گویائی سے محروم ہے۔
فاضل جج نے ملزم حسنین سے سوال کیا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ جس پر ملزم نے بتایا کہ "میری عمر 16 سال ہے۔"
عدالت کے باہر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ہر آنے جانے والے کی تلاشی لی جارہی تھی۔
احاطۂ عدالت کے باہر ملزمان کے اہلِ خانہ اور قریبی رشتے دار بھی موجود تھے جو دعائیں کرتے نظر آئے۔ پولیس نے کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔
عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد پولیس نے ملزمان کو دوبارہ سیالکوٹ منتقل کر دیا۔
131 افراد زیرِ حراست ہیں: سیالکوٹ پولیس
سیالکوٹ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل کالز ڈیٹا کی مدد سے دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق اب تک 131 افراد زیرِ حراست ہیں جن میں سے 26 ملزمان کے کردار کا تعین ہو چکا ہے جو تشدد میں براہِ راست ملوث پائے گئے ہیں۔دیگر زیرِ حراست 105 ملزمان سے مختلف ٹیمیں تفتیش کررہی ہیں۔
پولیس ترجمان نے کہا کہ اشتعال پھیلانے اور تشدد میں ملوث زیر حراست افراد کی نشاندہی کا عمل جاری ہے اور جن ملزمان پر ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں ان کی باضابطہ گرفتاری ڈال کر انہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
سیالکوٹ کی فیکٹری 'راجکو' جہاں جمعے کو یہ واقعہ پیش آیا تھا، تاحال بند ہے اور فیکٹری کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک پولیس کی طرف سے فیکٹری کھولنے کے بارے میں واضح احکامات نہیں ملے۔
فیکٹری انتظامیہ کے مطابق پولیس نے فیکٹری کے اندر اور باہر لگے سی سی ٹی وی کے 160 کیمروں کا ڈیٹا تحویل میں لے لیا تھا اس کے علاوہ جائے وقوعہ سے فنگرز پرنٹس سمیت تمام شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔