جنگجووں کا ابتدائی گروپ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں عراق کی سرحد پار کرکے عراقی کردستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں کو لوٹ گیا۔
واشنگٹن —
ترکی اور کردوں کے ایک اسیر رہنما کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کےتحت کرد مسلح باغیوں کا ترک علاقوں سے انخلا شروع ہوگیا ہے۔
معاہدے کےتحت کرد باغیوں کے انخلا کا آغاز بدھ کو ہوا جب 'کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)' سے تعلق رکھنے والے جنگجووں کا ابتدائی گروپ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں عراق کی سرحد پار کرکے عراقی کردستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں کو لوٹ گیا۔
'پی کے کے' کے اسیر رہنما عبداللہ اوغلان اور ترک حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت کرد باغیوں کو ترکی سے انخلا کا حکم گزشتہ ماہ تنظیم کے اعلیٰ ترین کمانڈر مراد کرائیلن نے دیا تھا ۔
باغیوں کے پہلے گروپ کی ترکی سے واپسی کے موقع پر ترک- عراق سرحد پہ سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور ترک سیکیورٹی اداروں کی بھاری نفری سرحد پر گشت کر رہی تھی۔
باغیوں نے انخلا کے موقع پر ترک فوج پہ ڈرون طیاروں سےنگرانی کرنے اور اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان اقدامات سے جھڑپوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوسکتا ہے۔
تاہم خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عراقی سرحد سے منسلک ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کی فضائوں میں کسی فوجی نقل و حرکت کی کوئی علامت یا نشانات نہیں ملے ہیں۔
ترکی کے سیکیورٹی اداروں نے تاحال باغیوں کے انخلا کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن کردوں کی نمائندہ ترک سیاسی جماعت 'امن و جمہوریت پارٹی (بی ڈی پی)' کے نائب سربراہ گلتان کسانک نے کہا ہے کہ انہیں دستیاب اطلاعات کے مطابق علاقے سے مسلح کرد جنگجووں کی عراق واپسی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
امکان ہے کہ کرد باغی ماضی کی طرح چھ، چھ کی ٹولیوں میں نظروں میں آئے بغیر عراق کی جانب سے سفر کریں گے اور یوں ان کے انخلا کا یہ عمل مکمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ایک ترک سیکیورٹی اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ترک فوج نے 'پی کے کے' کے ارکان کی نقل و حرکت نوٹ کی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی یہ نقل و حرکت واپسی کی غرض سے ہے یا اس کامقصد دوبارہ مورچے سنبھالنا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی میں گزشتہ 30 سال سے جاری کرد بغاوت کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کے کرد باغیوں کے ساتھ معاہدے کو آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت کا ایک جوا قرار دیا جارہا ہے۔ ترکی کے قوم پرست حلقے اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں جب کہ باغیوں نے بھی ترک فوج پر معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کا الزام عائد کیا ہے۔
معاہدے کےتحت کرد باغیوں کے انخلا کا آغاز بدھ کو ہوا جب 'کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)' سے تعلق رکھنے والے جنگجووں کا ابتدائی گروپ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں عراق کی سرحد پار کرکے عراقی کردستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں کو لوٹ گیا۔
'پی کے کے' کے اسیر رہنما عبداللہ اوغلان اور ترک حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت کرد باغیوں کو ترکی سے انخلا کا حکم گزشتہ ماہ تنظیم کے اعلیٰ ترین کمانڈر مراد کرائیلن نے دیا تھا ۔
باغیوں کے پہلے گروپ کی ترکی سے واپسی کے موقع پر ترک- عراق سرحد پہ سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور ترک سیکیورٹی اداروں کی بھاری نفری سرحد پر گشت کر رہی تھی۔
باغیوں نے انخلا کے موقع پر ترک فوج پہ ڈرون طیاروں سےنگرانی کرنے اور اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان اقدامات سے جھڑپوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوسکتا ہے۔
تاہم خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عراقی سرحد سے منسلک ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کی فضائوں میں کسی فوجی نقل و حرکت کی کوئی علامت یا نشانات نہیں ملے ہیں۔
ترکی کے سیکیورٹی اداروں نے تاحال باغیوں کے انخلا کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن کردوں کی نمائندہ ترک سیاسی جماعت 'امن و جمہوریت پارٹی (بی ڈی پی)' کے نائب سربراہ گلتان کسانک نے کہا ہے کہ انہیں دستیاب اطلاعات کے مطابق علاقے سے مسلح کرد جنگجووں کی عراق واپسی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
امکان ہے کہ کرد باغی ماضی کی طرح چھ، چھ کی ٹولیوں میں نظروں میں آئے بغیر عراق کی جانب سے سفر کریں گے اور یوں ان کے انخلا کا یہ عمل مکمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ایک ترک سیکیورٹی اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ترک فوج نے 'پی کے کے' کے ارکان کی نقل و حرکت نوٹ کی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی یہ نقل و حرکت واپسی کی غرض سے ہے یا اس کامقصد دوبارہ مورچے سنبھالنا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی میں گزشتہ 30 سال سے جاری کرد بغاوت کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کے کرد باغیوں کے ساتھ معاہدے کو آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت کا ایک جوا قرار دیا جارہا ہے۔ ترکی کے قوم پرست حلقے اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں جب کہ باغیوں نے بھی ترک فوج پر معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کا الزام عائد کیا ہے۔