|
ترکیہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں کی تیزی سے ہونے والی حالیہ پیش قدمی ظاہر کرتی ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کو اپنے عوام کے ساتھ مفاہمت اور حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کرنا چاہیے۔
انقرہ میں اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں حقان فیدان نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی میں مخالف فریقوں کی حمایت کرنے والے ترکیہ اور ایران نے باغیوں کی جانب سے بجلی کی سی تیز کارروائی شروع کرنے اور تقریباً پورے حلب شہر پرقبضہ کرنے کے بعد امن بحال کرنے کے لیے روس کے ساتھ مل کر سفارتی کوششیں دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی جانب سے تیزی سے پیش قدمی اسد کے لیےبہت بڑی خجالت کا باعث بنی ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسد کے اتحادی، ایران، اس کے خمایت یافتہ گروپ اور روس، سب اپنے اپنے اپنے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔
شام میں باغیوں کا یہ حملہ برسوں میں سب سے شدید تھا اور اس نے مشرق وسطیٰ میں ایک اور پرتشدد محاذ کے کھلنے کے امکانات کو جنم دیا ہے ۔
خطے میں پہلے ہی امریکی حمایت یافتہ اسرائیل، ایران کے اتحادیوں غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ سے لڑ رہا ہے۔
فیدان نے الزام لگایا کہ تنازعہ شامی حکومت کی طرف سے ترکیہ کی حمایت یافتہ حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کے باعث بھڑکا ہے۔
SEE ALSO: شام میں باغیوں کی اچانک پیش قدمی کی وجہ کیا ہے؟ترک وزیر خارجہ کے ریمارکس ان مایوسی کن حالات میں سامنے آئے ہیں جب ترکیہ کی اسد کے ساتھ مفاہمت کی حالیہ کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
"ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق یہ تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ حزب اختلاف کے جنگجوؤں کی جانب سے شام کی حکومت کو جھٹکا دینے کا مقصد شامی رہنما پر سیاسی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ترکیہ شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کی جنوبی سرحد پر کرد عسکریت پسندوں سے وابستہ گروپوں کی طرف سے سیکورٹی کے خطرات سے نمٹنے اور 30 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کی محفوظ وطن واپسی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔
دوسری طرف اسد نے اصرار کیا ہے کہ شمالی شام سے ترکیہ کی افواج کا انخلاء دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی شرط ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کو انقرہ کے سفر سے قبل اسد سے ملاقات کی تھی اور پریس کانفرنس میں انہوں نے شامی حکومت کے لیے تہران کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
SEE ALSO: حلب پر قبضے کے بعد باغیوں کی پیش قدمی جاری، روس اور شام کے ادلب پر فضائی حملےایران اسد کے اہم سیاسی اور فوجی اتحادیوں میں سے ایک رہا ہے۔
ایران نے 2011 میں اسد کی حکمرانی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے کے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کے بعد اپنے فوجی مشیروں اور فورسز کو تعینات کیا تھا۔
اے پی کے مطابق عراقی ملیشیا کے ایک اہلکار اور جنگی نگرانی کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا نے شام میں باغیوں کے خلاف حکومت کی جوابی کارروائی میں مدد کے لیے اپنے جنگجو تعینات کیے ہیں۔
ادھر شام میں باغیوں کی کارروائی نے پڑوسی ممالک میں تشویش پیدا کر دی ہے کہ یہ تنازعہ پھیل سکتا ہے۔
عراق میں وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل مقداد مری نے کہا ہے کہ شام کے ساتھ اپنی وسیع سرحد کی حفاظت کے لیے سیکورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ فیدان نے شام کی علاقائی سالمیت کے لیے ترکیہ کی حمایت کا اعادہ کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے عندیہ دیا کہ ترکیہ شامی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف مداخلت کرنے سے نہیں ہچکچائے گا اگر وہ گروہ "عدم استحکام کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں"۔
خیال رہے کہ ترکیہ ان گروپوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے۔
SEE ALSO: حلب پر عسکریت پسند قابض؛ شامی فوج کی مدد کے لیے عراق سے جنگجوؤں کی آمددونوں وزرائے خارجہ فیدان اور عراقچی نے اس موقع پر کہا کہ ترکیہ، ایران اور روس شام میں تنازع سے نمٹنے کے لیے ایک نیا سہ فریقی اجلاس بلائیں گے۔
عراقچی نے کہا، "ہم نے قریبی مشاورت اور بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اللہ نے چاہا تو ہم اپنے خطے میں امن اور استحکام کی جانب صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لیے تعاون کریں گے۔"
روس، جس کی شام کی خانہ جنگی میں مداخلت اسد کے حق میں تنازعہ موڑنے میں بہت اہم تھی، نے کہا ہے کہ وہ اسد کی حمایت جاری رکھے گا۔
(اس خبر میں شامل مواد اے پی سے لیا گیا ہے)