ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پیٹریاٹ میزائلوں کی خریداری سے متعلق بات چیت کریں گے۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ سے ان کے ذاتی مراسم روس سے ایئر ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے بعد پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور کریں گے۔
ترکی کی جانب سے رواں سال روس کے ایئر ڈیفنس سسٹم ایس-400 کی خریداری کے معاہدے پر امریکہ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ترکی کے اس اقدام کے بعد امریکہ کی جانب سے اسے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام فروخت کرنے کی پیش کش بھی ختم ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں ایردوان نے بتایا کہ ان کی دو ہفتے قبل صدر ٹرمپ سے پیٹریاٹ میزائلوں کی خریداری سے متعلق ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔ ان کے بقول وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ سے ملاقات میں اس پر مزید بات کریں گے۔
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ترکی امریکہ سے اسلحے کی خریداری کے معاہدے کا موازنہ روس کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے کرے گا۔ اس ضمن میں مشترکہ پیداوار اور نرم شرائط کو ترجیح دی جائے گی۔
ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کی جب صدر ٹرمپ سے فون پر بات ہوئی تو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کیا آپ سنجیدہ ہیں۔ جس پر میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ جب ہم اقوام متحدہ میں ملیں گے تو اس پر مزید بات کریں گے۔
ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی مبینہ خلاف ورزی کی پاداش میں ترکی کے سرکاری بینک پر بھاری امریکی جرمانے کے سوال پر ایردوان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔
شام میں محفوظ زون
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی صدر سے ملاقات میں ترکی اور شام کی سرحد کے قریب سیف زون کے قیام پر بھی بات کریں گے۔
خیال رہے کہ ترکی شام سے ملحق سرحد کے 450 کلومیٹر کے علاقے میں سیف زون بنانا چاہتا ہے۔ یہ علاقہ ترکی مخالف کردوں پر مشتمل وائی پی جے(YPG) ملیشیا کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ترکی نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
ترکی کا یہ الزام ہے کہ وائے پی جے گروپ ترکی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
امریکہ اس جنگجو گروپ کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ یہ گروپ شام میں دولت اسلامیہ(داعش) کے خلاف سرگرم ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ اور ترکی کی فوج نے اس علاقے میں مشترکہ گشت بھی کیا تھا۔ تاہم ترکی کے صدر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر امریکہ نے ترکی کا ساتھ نہ بھی دیا تو ترکی اپنے طور پر سیف زون کے قیام کے لیے شام میں کارروائی کرے گا۔