ترکیہ: امریکہ نواز شامی کرد گروپ کے خلاف کاروائی کی دھمکی

شامی کرد 21 نومبر 2022 کو شمالی شام کے گاؤں المالکیہ میں ترک فضائی حملوں میں مارے گئے لوگوں کے جنازے میں شریک ہیں۔

ترکیہ، جس نےاستنبول میں حالیہ بم دھماکے کا الزام کرد علیحدگی پسندوں پر عائد کیا ہے، کہا ہے کہ وہ امریکی حمایت یافتہ شامی کرد فورسز کے خلاف اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ شامی سرحد پار آپریشن شروع کرنے کو تیار ہے لیکن اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی مطالبات کا سامنا ہے۔

رپورٹس کے مطابق انقرہ پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ ماسکو نے بھی ترکیہ سے اس معاملے میں تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

اسی اثنامیں ترکیہ کی افواج شامی کرد ملیشیا، وائی پی جی، کے خلاف اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن منگل کو ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے خبردار کیا کہ زمینی کارروائی جلد ہو سکتی ہے۔

ایک تقریر کے دوران ایردوان نے کہا، "ہم اپنے طیاروں، توپوں اور بندوقوں کے ساتھ کچھ دنوں سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں۔انشاءاللہ، ہم اپنے ٹینکوں، اپنے سپاہیوں کے ساتھ، جلد از جلد ان سب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔"

انقرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کرد ملیشیا وائی پی جی نے اس ماہ استنبول میں ہونے والے مہلک بم دھماکے کے لیے سہولت فراہم کی۔ وائی پی جی اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سوشل میڈیا سے متعلق ایردوان حکومت کی مجوزہ قانون سازی پر تشویش

ترکیہ کے وزیر دفاع ہولوسی آکار نے پیر کے روز خبردار کیا تھا کہ اس کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ترکی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ گروپ اپنے آج کے اور اس سے قبل کیے گئے تمام جرائم کی قیمت ادا کرے ۔"وہ ان کی قیمت ادا کریں گے۔"

آکار نے بتایا کہ ترکیہ کے جاری حملے میں اب تک 184 عسکریت پسندوں کو مارا جا چکا ہے۔

پیر کے روز کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انقرہ نے دعویٰ کیا کہ شامی کرد عسکریت پسندوں کے سرحد پار راکٹ حملوں میں تین شہری مارے گئے۔ ترک صدر ایردوان نے کہا تھا کہ شام میں زمینی حملہ ممکن ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی اسلی آیدنتاسباس کہتی ہیں کہ جون میں انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ اس طرح کے حالات کا ہونا غیر متوقع نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: "انتخابی سالوں میں سرحد پار آپریشن دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن ترکیہ بھی طویل عرصے سے ایسا کرنا چاہتا ہے اور میرے خیال میں انتخابات ایک ایسی ٹائم لائن متعارف کروا رہے ہیں جو حکومت کے لیے کار آمد ہے اور ترکیہ کو بھی لگتا ہے کہ اس کا ہاتھ مضبوط ہے۔"

Your browser doesn’t support HTML5

ترکی پر شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر دباؤ

واشنگٹن نے انقرہ کو سرحد پار کسی بھی کارروائی کے خلاف خبردار کیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ داعش کے خلاف جنگ میں کرد گروپ وائی پی جی کی حمایت کرتا ہے۔

تاہم، وزیر دفاع آکار نے واشنگٹن کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وائی پی جی کی حمایت بند کردے کیونکہ یہ گروپ پی کے کے تنظیم سے وابستہ ہے جو کہ ترکیہ کی ریاست سے اقلیتوں کے زیادہ حقوق کے لیے لڑ رہی ہے۔

آئیدین سیلسین ترکی کے ایک سابق سینئر سفارت کار ہیں جنہوں نے خطے میں خدمات انجام دیں اور اب ایک نیوز پورٹل میڈیاسکوپ کے علاقائی تجزیہ کار ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انقرہ، ایردوان، اور وزیر دفاع آکار باربار یہ واضح کر چکے ہیں کہ ترکیہ امریکہ کی جانب سے وائی پی جی گرو پ کو اسلحے سے لیس کرنے اور تربیت دینے سے خوش نہیں ہے جو شام میں پی کے کے تنظیم کی براہ راست توسیع ہےاور انقرہ اسے سب سے بڑا مسئلہ سمجھتا ہے۔

لیکن اب واشنگٹن کے ساتھ غیر معمولی مشترکہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کریملن یعنی روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے منگل کو ترکیہ سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔

شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے بھی انقرہ کو شام میں کسی بھی فوجی کارروائی کے خلاف خبردار کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کرد جنگجوں کا مستقبل کیا ہو گا؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تہران کو شام میں ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے تشویش ہے۔

کسا ڈالگا نیوز پورٹل کے ترک تجزیہ کار الہان ازگل کہتے ہیں کہ ایردوان موجودہ کشیدگی کو سودے بازی کے موقع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

"وہ مغرب سے کچھ حاصل کرنے کے لیے اس سودے بازی کی چپ کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ امریکہ سے F-16 لڑاکا طیاروں کی خریداری ہو سکتی ہے۔ وہ سودا کرنا جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ (وہ) اس معاملے کو کس حد تک آگے بڑھا سکتے ہیں۔"

ترکیہ کی F-16 لڑاکا طیاروں کی خریداری امریکی کانگریس میں تعطل کا شکار ہے۔

ترکیہ کے ارادے کچھ بھی ہوں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انقرہ ممکنہ طور پر کشیدگی اور بیان بازی کو بلند رکھے گا کیونکہ وہ دشمنوں اور اتحادیوں کو اپنے اصل ارادوں کے متعلق اندازے لگانا دیکھنا چاہتا ہے۔