ترکی: سوروچ حملہ، کچھ دیر کے لیے ٹوئٹر تک رسائی بند

سادہ کپڑوں میں ملبوس، ترک پولیس

امریکہ نے اسے ’قبیح‘ حرکت کہتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اخباری بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم ترک حکومت اور ترک عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرات کے خلاف لڑائی میں غیرمتزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں‘

ترکی میں بدھ کے روز تھوڑی دیر کے لیے ٹوئٹر تک رسائی بند کردی گئی، تاکہ پیر کے روز سوروچ میں ہونے والے بم حملے کی تصاویر کی تشہیر روکی جا سکے، جس میں کم ا زکم 30 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔

حکومت ترکی کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ رسائی تب بحال کی گئی جب ادارے نے ضرر رساں مواد ہٹا لیا، جس میں، عدالتی حکم نامے کے مطابق، نفرت آمیز خطاب بھی شامل ہے۔

یہ بات اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتائی، چونکہ حکام کی ابلاغ عامہ سے گفتگو پر پابندی ہے۔

حکام نے کہا تھا کہ ترکی نے ٹوئڑ سے کہا ہے کہ بم حملے سے متعلق تصاویر سمیت، 107 ’یوآر ایلز‘ کو ہٹا دیں؛ اور کمپنی نے پابندی لگنے سے پہلے ہی اس میں سے 50 یو آر ایلز کو ہٹا دیا۔

اناطولیہ نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ، اس سے قبل بدھ کو سوروچ مین ایک عدالت نے بم حملے سے متعلق تصاویر شائع کرنے پر پابندی لگادی تھی، جس میں انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا پلیٹ فارم شامل ہیں۔

دریں اثنا، ترک حکام نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پیر کے دِن ہونے والا بم دھماکہ خودکش حملہ تھا، اور دھماکہ کرنے والے کی شناخت سید عبد الرحمٰن الاغوز کے نام سے کی گئی ہے، جو 20 برس کی عمر کا ترک شہری تھا۔

دھماکے میں ایک سرگرم گروپ کو نشانہ بنایا گیا، جس مین زیادہ تر یونیورسٹی کے طالب علم شامل ہیں جو قریبی شامی سرحد کے پار جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، تاکہ کوبانی شہر کی تعمیر نو میں حصہ لے سکیں۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے، اِسے دہشت گردی قرار دیا ہے۔

ادھر، امریکہ نے اسے ’قبیح‘ حرکت کہتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے اخباری بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم ترک حکومت اور ترک عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرات کے خلاف لڑائی میں غیرمتزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

سوروچ میں شام سے آنے والے پناہ گزینوں کےکا ایک بڑا کیمپ لگاہوا ہے، جو اپنے ملک کے گھر بار چھوڑ کر ترکی آئے ہوئے ہیں۔ سرحد کے اُس پار، کوبانی واقع ہے جہاں کرد افواج اور داعش کے شدت پسندوں کے درمیان شدید لڑائیاں کو چکی ہیں۔