ترکی میں دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ پولیس نے آنسو گیس استعمال کر کے غلطی کی لیکن ان کا اصرار تھا کہ تقسیم چوک میں ترقیاتی پراجیکٹ پر کام جاری رہے گا۔
ترکی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں دوسرے روز بھی جاری ہیں جہاں استنبول کے ایک پارک میں تجارتی تعمیرات کےخلاف احتجاج کا سلسلہ حکومت مخالف مظاہرے کی شکل اختیار کر کے پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔

پولیس نے ایک روز قبل مصروف تین علاقے تقسیم چوک پر جمع ہونے والے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھاریں استعمال کی۔ لیکن اس اقدام سے معاملہ اور بگڑ گیا اور پورا علاقہ کسی میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

استنبول کے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے انقرہ سمیت درجن بھر دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے جہاں احتجاج کرنے والوں کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین وزیراعظم رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔

ہفتہ کو استنبول میں پولیس کی مظاہرین سے جھڑپیں جاری رہیں اور اسی دوران مسٹر اردوان نے ایک تقریر میں صورتحال کو پرامن کرنے کی کوشش بھی کی۔

وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ پولیس نے آنسو گیس استعمال کر کے غلطی کی لیکن ان کا اصرار تھا کہ تقسیم چوک میں ترقیاتی پراجیکٹ پر کام جاری رہے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بدامنی سے حکومت کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے جس پر بعض حلقوں کی جانب سے پہلے ہی بہت زیادہ اختیارات حاصل کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔