عراقی سرحد پر کرد باغیوں کے خلاف ترکی کی مہم تیز

اپنے اقربا کی موت پر غمزدہ کرد خواتین

ترکی کی مملکت اور کرد ش باغی گروپ پی کے کے، کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ترکی کی مسلح افواج نے حال ہی میں شمالی عراق کے اندرپی کے کے، کے اڈوں پر بمباری کی ہے ۔ اس قسم کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ترکی کی فوجیں عراق میں داخل ہونے والی ہیں۔

گذشتہ ہفتے 15 ترک سپاہی بارودی سرنگوں سے زخمی ہوگئے ۔ اس حملے کا الزام کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کیا گیا۔ ترکی کی مسلح افواج اور پی کےکے، کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ یہ تازہ ترین واقعہ تھا۔ چند دن پہلے ترک فضائیہ ہمسایہ ملک عراق میں پی کے کے، کے اڈوں پر بمباری کی ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے تقریباً 100 باغی ہلاک کر دیے ہیں جب کہ پی کے کے کا کہنا ہے کہ اس کے صرف تین ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔ وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ یہ محض ابتدا ہے ۔’’امن کے لیے کارروائی کرنا ہر حکومت کا قدرتی حق ہے ۔ یہ ہمارا فرض ہے اور اس کے لیے جو کچھ ضروری ہوگا، ہم وہ سب کچھ کریں گے۔‘‘

گذشتہ کئی مہینوں سے پی کے کے،کے ساتھ جھگڑے میں مسلسل تیزی آرہی ہے ۔ گذشتہ جون کے انتخاب سے پہلے، فوج نے تقریباً دو درجن باغیوں کو ہلاک کر دیا ۔ باغیوں نے بدلہ لینے کا عہد کیا۔ جون میں انتخاب کے بعد پی کے کے نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی ختم کر دی اور تقریباً 40 ترک سپاہیوں کو ہلاک کر دیا ۔ اس بڑھتے ہوئے تشدد پر کردوں کے حامی رکنِ پارلیمینٹ Ertugral Kurkcu نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’وزیرِ اعظم کا یہ سمجھنا غلط ہے کہ کرد طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ وہ بالکل غلط سمجھے ہیں ۔ ان کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں کھل کر لڑائی شروع ہو جائے گی۔ وزیرِ اعظم کردوں کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترک فوج سرحد پار شمالی عراق میں داخل ہو جائے گی اور اس طرح تشدد میں مزید اضافہ ہوگا۔ پی کے کے، کے باغیوں کی اکثریت پہاڑی علاقے میں رہتی ہے ۔ گذشتہ چند دنوں میں، 2000 سے زیادہ سپاہی سرحد پر بھیجے گئے ہیں۔ لیکن بریگیڈیئر Haldun Solmazturk جو 1990 کی دہائی سے اب تک عراق میں 30 سے زیادہ کارروائیوں میں حصہ لے چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اس قسم کی کارروائیاں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔’’یہ مسئلہ بڑی حد تک ترکی کی سرحدوں کے اندر کا مسئلہ ہے ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ قندیل کی پہاڑیوں میں پی کےکے، کے عناصر کی موجودگی اس بڑے مسئلے کا چھوٹا سا حصہ ہے جو ترکی کے اندر موجود ہے ۔ ہمیں یہ بات قبول کرنی چاہیئے ۔ ہمیں ترکی کے لوگوں کو یہ غلط تاثر نہیں دینا چاہیئے کہ اگر ہم سرحد پار کرکے عراق کے اندر تک چلے جائیں اور ان کے لیڈروں تک کو گرفتار کر لیں، تو یہ سارا مسئلہ فوری طور پر حل ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سولی اوزل کہتے ہیں کہ اگرچہ عراق کے سرحد کے اندر داخل ہونے سے سفارتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ میں ترکی کے اتحادی عراقی علاقے میں ترکی کی مسلح افواج کی بمباری پر خاموش ہیں اور اس طرح انقرہ کو عراق کے اندر کارروائی کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔’’میرے خیال میں ترکی پر اس کارروائی کو مختصر رکھنے کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جائے گا اور نہ بہت زیادہ احتجاج ہوں گے۔ دوسری طرف، یہ کہنا مشکل ہے کہ لمبے عرصے میں عراقی حکومت کا رد عمل کیا ہو گا، اور کردستان کی علاقائی حکومت کے ساتھ کس قسم کے مسائل پیدا ہوں گے، اور ترکی کے اندر رہنے والے کردوں پر اس کارروائی کا کیا اثر ہو گا۔‘‘

گذشتہ چند برسوں میں، ترکی نے عراق کی کردش علاقائی حکومت کے ساتھ پہلی بار سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ لیکن عراق کی کردش قیادت نے پہلے ہی اپنے علاقے میں ترکی کے ہوائی حملوں کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ترکی کو اپنی کرد اقلیت کے ساتھ مسائل اپنے علاقے کے اندر طے کرنے چاہئیں۔

اوزل کہتے ہیں کہ پی کے کے، کے خلاف ترک وزیر اعظم کی روز افزوں سخت پالیسی، کرد اقلیت کی جانب ان کی بدلتی ہوئی وسیع تر پالیسی کا حصہ ہو سکتی ہے ۔’’وہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہیں کہ پی کے کے اور کردش مسئلہ تو مختلف چیزیں ہیں، تو وہ خود کو صحیح ثابت کر سکیں۔ یاد رکھیئے کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا کہ میرے کردش بھائیوں کے کچھ مسائل ہیں، اور کوئی کردش مسئلہ نہیں ہے۔ 2005 میں ان کا جو موقف تھا یہ اس سے پیچھے کی طرف ایک قدم ہے ۔ میرے خیال میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔‘‘

دو برس قبل، ترک وزیرِ اعظم نے پی کے کے، کے ساتھ تنازع کو پُر امن طور پر حل کرنے کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بات آگے نہیں بڑھی ۔ انتخاب کے بعد، مسٹر اردوان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ کردوں کے مطالبات ایک نئے آئین کے ذریعے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ لڑائی میں شدت آنے کے اندیشوں کے ساتھ ، اس 27 سالہ پرانے تنازع کے پُر امن حل کی امید تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔