وزیرِاعظم ایردوان نے کہا ہے کہ حجاب پر پابندی کے باعث نوجوانوں اور ان کے والدین نے سخت تکلیف اٹھائی ہے اور اب، ان کے بقول، "یہ سیاہ دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے"۔
واشنگٹن —
ترکی کی حکومت نے سرکاری اداروں میں خواتین کے سر ڈھانپنے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لگ بھگ 88 سال قبل ترکی میں خلافت کے خاتمے اور "ترک جمہوریہ" کے قیام کے وقت عائد کی جانے والی اس پابندی کے باعث کئی خواتین پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند تھے۔
ترکی کی حکومت نے منگل کو پابندی کے خاتمے کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ لیکن اس نوٹی فکیشن کا اطلاق عدلیہ اور فوج پر نہیں ہوگا اور ان دونوں اداروں میں بدستور خواتین کے حجاب پر پابندی رہے گی۔
خیال رہے کہ ترکی کے یہ دونوں ادارے ملک کی سیکولر شناخت اور آئین کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔
ترک حکومت کے مطابق پابندی کا خاتمہ گزشتہ ہفتے متعارف کرائی جانے والی ان اصلاحات کا حصہ ہے جن کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
لیکن وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان کی حکومت کے اس اقدام کو ان کی مخالف سیکولر جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے "حکومت کے اسلام پسند خفیہ ایجنڈے" کا ایک اور مظاہرہ قرار دیا ہے۔
منگل کو حکمران جماعت 'اے کے پارٹی' کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم ایردوان نے کہا کہ حجاب پر اس پابندی کے باعث نوجوانوں اور ان کے والدین نے سخت تکلیف اٹھائی ہے اور اب، ان کے بقول، "یہ سیاہ دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے"۔
حجاب پر پابندی کئی عشروں تک ترکی کے اسلام پسند اور سیکولر حلقوں کے درمیان تنازع کا سبب رہی ہے اور ماضی میں کئی اسلام پسند خواتین اس پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں پارلیمان کی رکنیت اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں سے محروم ہوتی رہی ہیں۔
لگ بھگ 88 سال قبل ترکی میں خلافت کے خاتمے اور "ترک جمہوریہ" کے قیام کے وقت عائد کی جانے والی اس پابندی کے باعث کئی خواتین پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند تھے۔
ترکی کی حکومت نے منگل کو پابندی کے خاتمے کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ لیکن اس نوٹی فکیشن کا اطلاق عدلیہ اور فوج پر نہیں ہوگا اور ان دونوں اداروں میں بدستور خواتین کے حجاب پر پابندی رہے گی۔
خیال رہے کہ ترکی کے یہ دونوں ادارے ملک کی سیکولر شناخت اور آئین کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔
ترک حکومت کے مطابق پابندی کا خاتمہ گزشتہ ہفتے متعارف کرائی جانے والی ان اصلاحات کا حصہ ہے جن کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
لیکن وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان کی حکومت کے اس اقدام کو ان کی مخالف سیکولر جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے "حکومت کے اسلام پسند خفیہ ایجنڈے" کا ایک اور مظاہرہ قرار دیا ہے۔
منگل کو حکمران جماعت 'اے کے پارٹی' کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم ایردوان نے کہا کہ حجاب پر اس پابندی کے باعث نوجوانوں اور ان کے والدین نے سخت تکلیف اٹھائی ہے اور اب، ان کے بقول، "یہ سیاہ دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے"۔
حجاب پر پابندی کئی عشروں تک ترکی کے اسلام پسند اور سیکولر حلقوں کے درمیان تنازع کا سبب رہی ہے اور ماضی میں کئی اسلام پسند خواتین اس پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں پارلیمان کی رکنیت اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں سے محروم ہوتی رہی ہیں۔