ترکی اور امریکہ نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش کے زیر ِاستعمال ترک شام سرحد کی 98 کلومیٹر کی پٹی کو بند کرنے کے لیے اُن کی افواج ایک اہم فوجی کارروائی کرنے پر تیار ہیں۔
ترک وزیر خارجہ، فریدون سنیریگلو نے اناتولیہ خبر رساں ادارے کو بتایا کہ، ’ہم کچھ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، جن کا مقصد داعش کی جانب سے ہماری سرحد کے ایک علاقے پر کنٹرول خالی کرانا ہے‘۔
بقول اُن کے، ‘اِس کا مشاہدہ آپ اگلے چند ہی دِنوں کے اندر کریں گے‘۔
ترکی میں امریکہ کے سفیر، جان باس نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ داعش ہماری سرحد کا ایک حصہ استعمال کر رہا ہے، جس سے لوگ اور اشیا کا گزار ہوتا ہے‘۔
بقول اُن کے، ’ہمارے اتحاد کے دیگر ساجھے داروں کی طرح، اس معاملے پر ہم حکومت ترکی سے گفتگو کر رہے ہیں‘۔
باس نے کہا کہ ’سرحدی سکیورٹی کے مسئلے کے حل کے لیے، تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں‘۔
داعش سے نبردآزما ہونے کے حوالے سے داخلی طور پر حکومت ترکی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ابتدا میں، جب دولت اسلامیہ پھیلتا جا رہا تھا، انقرہ نےکوئی خاص آواز بلند نہیں کی، جس کا سبب،، تجزیہ کاروں کی نظروں میں، کسی حد تک ترک صدر رجب طیب اردگان کی مذہبی ہمدردیاں تھیں، اور یہ توقعات کہ داعش کے شدت پسند شام کے صدر بشار الأسد کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
مائیکل ربین ’امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ‘ میں تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، حکومت داعش کے لیے صرف نظر اور ترکی کی سکیورٹی افواج اُن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے‘۔