فرانس میں ترکی مخالف قانون سینیٹ میں پیش

فرانس میں ترکی مخالف قانون سینیٹ میں پیش

بل کے فرانسیسی سینیٹ میں پیش کیے جانے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے خبردار کیا کہ اگر مجوزہ قانون مکمل طور پر مسترد نہیں کیا گیا تو ان کا ملک فرانس کے خلاف نئے اور مستقل اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔

ترکی کے شدید احتجاج کے باوجود فرانسیسی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے ایک متنازع قانون پہ بحث کا آغاز کردیا ہے جس کے تحت ایک صدی قبل ترکی کی عثمانی خلافت کے دور میں آرمینی باشندوں کے قتلِ عام کے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جارہا ہے۔

فرانس کا ایوانِ زیریں گزشتہ ماہ مذکورہ قانون کی منظوری دے چکا ہے جب کہ سینیٹ میں بِل پہ رائے شماری پیر کی شام متوقع ہے۔

بل کے فرانسیسی سینیٹ میں پیش کیے جانے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے خبردار کیا کہ اگر مجوزہ قانون مکمل طور پر مسترد نہیں کیا گیا تو ان کا ملک فرانس کے خلاف نئے اور مستقل اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔

قبل ازیں بل کی ایوانِ زیریں سے منظوری پر ترکی نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے فرانس سے اپنا سفیر واپس بلالیا تھا اور فرانسیسی بحریہ کو ترکی کی حدود استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔

قانون کی منظوری کے ردِ عمل میں انقرہ حکومت نے فرانس کے فوجی طیاروں پر ترکی کی فضائی حدود استعمال کرنے پہ بھی پابندی عائد کردی تھی۔

فرانس کی وزارتِ خارجہ نے ترکی پہ زور دیا ہے کہ وہ معاملہ پہ انتہائی ردِ عمل دینے سے گریز کرے۔ وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فرانس ترکی کو اپنا ایک "انتہائی اہم اتحادی' تصور کرتا ہے۔

بل پر سینیٹ میں جاری بحث کے دوران فرانسیسی پارلیمان کی عمارت کے باہر ترکی اور آرمینیا کی حمایت میں مظاہرے بھی کیے گئے جس میں ایک موقع پر مظاہرین کو باہم تصادم سے روکنے کے لیے فرانسیسی پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔

مجوزہ قانون کے تحت آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی ماننے سے انکار کرنے والوں کو ایک سال قید اور 58 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

واضح رہے کہ آرمینیائی مورخین کا دعویٰ ہے کہ پہلی عالمی جنگ سے قبل اور اس کے دوران ترکی کی عثمانیہ سلطنت نے تقریباً پندرہ لاکھ آرمینی باشندوں کو قتل کیا تھا۔

کئی ممالک ان ہلاکتوں کو نسل کشی کی منظم واردات قرار دیتے ہیں تاہم ترکی نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ مقتول آرمینی باشندوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔