تیونس کے پارلیمان نے دارالحکومت میں دہشت گردی کے مہلک واقعے کے ایک روز بعد یومِ یکجہتی منانے کا اعلان کیا۔ بدھ کو مسلح حملہ آوروں نے شہر کے اہم سیاحتی مراکز پر حملے میں 19 افراد کو ہلاک جبکہ 40 کو زخمی کر دیا تھا۔
پارلیمان کے صدر محمد الناصر نے کہا کہ ’’حملوں کا ہدف پارلیمان اور قومی عجائب گھر تھے۔‘‘ یہ بات انہوں نے بدھ کی شام ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں کہی۔ ’’یہ اہم علامتیں ہیں اور اس حملے کا مقصد ہمیں یہ پیغام پہنچانا تھا کہ آج کے دور میں دہشتگردی کی نوعیت اس لحاظ سے بدل چکی ہے کہ یہ شہر میں موجود ہے اور اس کی نظر ہماری قومی علامتوں پر ہے۔‘‘
وزیرِ اعظم حبيب الصيد نے کہا کہ دو حملہ آور جنہوں نے فوجی طرز کے لباس پہن رکھے تھے، نے دارالحکومت تیونس کے نیشنل باردو میوزیم میں ایک چھوٹے گروپ کو یرغمال بنانے سے پہلے سیاحوں کو ’’نشانہ بنایا اور ان کا پیچھا کیا‘‘۔
پولیس نے یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے کیے جانے والے ایک آپریشن میں دو حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان کے تین اور ساتھیوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
جاپانی حکام نے جمعرات کو بتایا کہ جاپان کے تین شہری بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ وزیرِ اعظم حبيب الصيد نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کا نشانہ بننے والوں میں جرمنی، اٹلی، پولینڈ اور اسپین کے شہریوں کے علاوہ تیونس کے دو شہری بھی شامل ہیں۔
تیونس کے ٹیلی وژن نے جمعرات کو عمر رسیدہ سیاحوں اور بچوں کو مسلح اہلکاروں کی حفاظت میں اس جگہ سے فرار ہوتے ہوئے دکھایا۔ وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ حملے کے وقت عجائب گھر میں کم از کم 100 کے قریب افراد موجود تھے۔
بدھ کی شام صدر محمد الباجی قائد السبسی نے قوم سے ٹیلی وژن پر خطاب میں کہا کہ ’’میں یہ چاہتا ہوں کہ تیونس کے عوام یہ بات سمجھیں کہ ہم دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور یہ وحشی اقلیت ہمیں خوفزدہ نہیں کر سکتی۔‘‘
اقوامِ متحدہ، امریکی وزیرِ خارجہ اور فرانس کے وزیرِ اعظم سمیت دنیا کے کئی رہنماؤں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔