تیونس: پہلے جمہوری انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری

تیونس: پہلے جمہوری انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری

تیونس میں حکام گزشتہ روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی میں مصروف ہیں جو اس انقلاب کے بعد ملک کے پہلے جمہوری انتخابات ہیں جس نے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں 'بہارِ عرب' کے نام سے چلنے والی مقبول عوامی احتجاجی تحریک کو جنم دیا تھا۔

تیونس میں اتوار کو 217 رکنی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے جس کے ارکان عبوری حکومت منتخب کرنے کے علاوہ ملک کا نیا آئین بھی مرتب کریں گے۔ حکام کے مطابق انتخابات کے نتائج کا اعلان پیر کی شب یا منگل کو متوقع ہے۔

تیونس کے آزاد انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ 41 لاکھ رجسٹرڈ رائے دہندگان میں سے 90 فی صد سے زائد نے انتخابات کے دوران اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا ہے۔

اتوار کو تیونسی باشندے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر نکلے جو اِس امر پر خوشی اور فخر محسوس کررہے تھے کہ انہیں متعدد سیاسی جماعتوں میں سے اپنی مرضی کی کسی پارٹی کے امیدوار کو منتخب کرنے کا موقع مل رہاہے۔ واضح رہے کہ 1956ء میں آزاد ہونے والے اِس عرب ملک میں پہلی بار کثیر الجماعتی انتخابات ہو رہے ہیں۔

انتخابات میں 100سے زائد سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ اس سے قبل ماضی میں ہونے والے انتخابات میں صرف حکمران جماعت کے امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے آزاد انتخابات کے انعقاد پر تیونس کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ انتقالِ اقتدار کے عمل کو شفاف بنانے کے نکتے پر متحد رہیں۔

اتوار کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے انتخابات کو خطے کی جمہوریت کی طرف پیش قدمی میں ایک نمایاں پیش رفت قرار دیا۔

اگر انتخابات کے نتیجے میں تیونس میں ایک موٴثر حکومت وجود میں آتی ہے تو یہ خطے میں ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرے گی

اسلام پسندوں کی کامیابی کا قومی امکان

پیش گوئی کی جارہی ہے کہ تیونس کی اعتدال پسند اسلامی جماعت 'النہضہ' انتخابات میں اکثریت حاصل کرلے گی۔ 'النہضہ' کے رہنمائوں نے اتحادی حکومت کے قیام کے لیے دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطہ شروع کردیے ہیں۔

'النہضہ' کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کہ وہ ملک میں اسی طرح کی ایک سیکولر اور مقبول حکومت قائم کرنے چاہیں گے جیسی کہ ترکی میں موجود ہے جہاں کی حکمران جماعت 'اے کے پی' بھی اسلامی شناخت کی حامل قرار دی جاتی ہے۔

تاہم ا'لنہضہ' کے حامی اس حوالے سے اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں کہ ان کی جماعت کو اقتدار میں آنے کے بعد شخصی اخلاقیات کے معاملے پر کس حد تک قواعد و ضوابط کا نفاذ کرنا چاہیے۔

بعض حامیوں کو امید ہے 'النہضہ' کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں مسلمانوں کو اسلامی لباس اپنانے اور نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی کی اجازت ملے گی وہیں عورتوں کو حجاب نہ کرنے اور ملک میں شراب کی خرید و فروخت کی اجازت بھی برقرار رہے گی۔

تاہم بعض رائے دہندگان کو اندیشہ ہے کہ بظاہر متوازن عوامی بیانات کے باوجود 'النہضہ' اقتدار میں آنے کے بعد تیونس میں خواتین کو حاصل آزادیوں سے متعلق جدید قوانین کو منسوخ کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔

'النہضہ' کے سربراہ راشد الغنوشی نے بھی اتوار کو دارالحکومت تیونس کے نواح میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ ایک طویل قطار میں لگ کر ووٹ کا حق استعمال کیا۔

ووٹ ڈالنے کے بعد صحافیوں سے گفتگومیں الغنوشی نے انتخابات کو ملک میں جمہوریت کا آغاز قرار دیا۔ تاہم اس موقع پر وہاں موجود بعض رائے دہندگان نے ان پر آوازے کسے اور انہیں "دہشت گرد" قرار دیتے ہوئے وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ اس واقعہ سے تیونس میں مذہبی اور سیکولر طبقے کے درمیان موجود تنائو کا اندازہ ہوتا ہے۔

انتخابات کا پسِ منظر

انتخابات کے موقع پر پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات تھی جبکہ ہزاروں مقامی اور غیر ملکی مبصرین اور صحافیوں نے پولنگ کے عمل کی نگرانی کی۔

تیونس میں ہونے والے یہ انتخابات 'عرب اسپرنگ' کے اولین انتخابات ہیں جن کے انعقاد سے لگ بھگ نو ماہ قبل تیونس کے باشندوں نے اپنی مقبول احتجاجی تحریک کے ذریعے طویل مدت تک اقتدار میں رہنے والے آمر، زین العابدین بن علی کا تختہ الٹ دیا تھا۔

شمالی افریقہ میں واقع اس عرب ملک میں برپا ہونے والے انقلاب کا آغاز گزشتہ برس دسمبر میں پیش آئے ایک حادثہ سے ہوا تھا جس میں ایک اعلیٰ تعلیمِ یافتہ بےروزگار نوجوان نے پولیس کی جانب سے اپنا پھلوں اور سبزیوں کا ٹھیلہ الٹنے کے خلاف احتجاجاً خودسوزی کرلی تھی۔

محمد بوعزیز نامی یہ نوجوان دو ہفتے جاں کنی کے عالم میں گزارنے کے بعد ہلاک ہوگیا تھا لیکن اس کے اس غیر معمولی اقدام سے شروع ہونے والی تحریک نے ملک پر عشروں سے حکمران بن علی کو 14 جنوری کو سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔