پاک افغان اعتماد سازی میں ذرائع ابلاغ کا کردار اہم ہے، جنرل باجوہ

جنرل باجوہ نے افغان صحافیوں سے کہا کہ حریف قوتوں کی طرف سے پیدا کردہ منفی تاثر کو ختم کرنے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ دشمن ہیں اور الزام تراشی کی بجائے ان کے خلاف باہمی اعتماد کے ساتھ مربوط کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

جنرل باجوہ نے یہ بات پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان صحافیوں کے نو رکنی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جس نے راولپنڈی میں واقع فوج کے صدر دفتر میں ان سے ملاقات کی۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر' کے ایک بیان کے مطابق جنرل باجوہ نے افغان صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان نے تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور ان کے بقول پاکستان میں ایسے محفوظ ٹھکانے موجود نہیں ہیں جو افغانستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہوں۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے تناؤ کا شکار ہیں جس کی عکاسی دونوں ملکوں کی میڈیا میں بھی ہوتی ہے۔

جنرل باجوہ نے افغان صحافیوں سے کہا کہ حریف قوتوں کی طرف سے پیدا کردہ منفی تاثر کو ختم کرنے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

معروف تجزیہ کار اور ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چاہے زمانہ امن ہو یا جنگ کا زمانہ ملکوں کےتعلقات کے حوالے سے میڈیا کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ افغانستان کا میڈیا اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے جتنا پاکستان کا میڈیا ہے۔۔۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے میڈیا پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ اصل مسائل کیا ہیں اور ان کا کیا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے اور حالات کو بہتر کرنے کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت یا آنے والی حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔"

مہدی حسن نے مزید کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی سے متعلق مثبت یا منفی رائے عامہ بنانے میں میڈیا نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

" میڈیا کو عوام کی خواہشات کے مطابق ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے (کسی اور کے ) ایجینڈے کو اپنانا نہیں چاہیے۔ جو کچھ کوئی کہہ رہا ہے وہ عوام تک پہنچا دیں۔ رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے پالیسی سازوں کے لیے ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے کہ اس پر عمل کریں۔"

حالیہ مہینوں میں افغانستان کے کئی سرکاری اور غیر سرکاری وفود پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ دو ہمسایہ ملکو ں کے درمیان باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسے وفود کے تبادلے تعلقات کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ادارے اگر افغان کارکن صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے کا کوئی پروگرام وضع کرتے ہیں تو یہ ایک مثبت اقدام ہو گا جس سے حالات کے بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔