|
امریکی انتخابات میں ووٹنگ کے دن تک کے رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے رہے ہیں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کاملا ہیرس کے درمیان مقابلہ سخت ہوگا۔ لیکن آبادی کے کئی طبقوں میں جن میں مرد، خواتین اور لیٹینو ووٹر شامل ہیں، ٹرمپ نے واضح برتری حاصل کی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق، ٹرمپ نے نہ صرف اپنے کٹر حامیوں کے ووٹ حاصل کیے بلکہ ان لوگوں میں بھی کامیابی حاصل کی جو روایتی طور پر ڈیمو کریٹس کو ووٹ دیتے ہیں جن میں افریقی امریکی نوجوان، لیٹینو مرد اور عمومی طور پر نوجوان شامل ہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کی انتخابی فتح منصفانہ اور شفاف ہے، بائیڈن کا خطابدوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں جو بات کہی وہ یہی تھی کہ ملک بھر سے ہر طبقے کے لوگ ان کے لیے باہر نکلے۔ انہوں نے کہا لوگ ان کے لیے ملک کے کونے کونے سے آئے جن میں یونین والے، وہ جن کی کوئی یونین نہیں، افریقی امریکی، ہسپانوی امریکی، ایشیائی امریکی، عرب امریکی اور مسلم امریکی سب شامل ہیں۔
انتخابات سے پہلے ٹرمپ پر عدالتوں کی طرف سے مختلف جرائم میں 34 الزامات عائد کیے گئے تھے اور اب وہ 20 سال میں پہلے ایسے ریپبلکن صدارتی امیدوار ہیں جنہوں نے عام لوگوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سیموئیل ابرامز نیویارک کے سارہ لارنس کالج میں پولیٹکس اور سوشل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست کی حالیہ تاریخ میں یہ بات دلچسپ ہے کہ کچھ چیزوں کا اثر ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ اور ان انتخابات میں یہی ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بعض فوجداری الزامات کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ابرامز کہتے ہیں کہ فرق پڑا تو اپنا پیغام کامیابی کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے اور امریکہ بھر میں آبادی کے مختلف طبقات کے مسائل کی بات کرنے کی ٹرمپ کی صلاحیت سے۔
انہوں نے کہا ٹرمپ لوگوں سے کہتے رہے کہ "میں آپ کی بات سن رہا ہوں، میں آپ کی مشکل کو سمجھتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ حالات اچھے نہیں ہیں اور میں آپ کی مدد کروں گا اور حالات اتنے آسان بناؤں گا کہ آپ کی مالی مشکلات کم ہوں۔"
ٹرمپ کی انتخابی مہم نے پوڈ کاسٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کیا۔ ٹرمپ کی "جو روگن ایکسپیرئینس" نامی پوڈ کاسٹ میں شرکت کو یو ٹیوب پر 4کروڑ 70 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔
تھام رائیلی ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک افئیرز میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ٹرمپ کی انتخابی مہم نے نوجوانوں اور ان لوگوں تک پیغام پہنچایا جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں دیا تھا یا جو برسوں سے افراطِ زر کے باعث مشکلات کا شکار تھے اور اسی کا انہیں فائدہ ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تھام رائیلی کہتے ہیں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس کو، جولائی میں صدر جو بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے الگ ہونے کے بعد اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے سو روز ملےتھے، جو الیکشن کے دن تک ایک تیز دوڑ کی مانند تھے اور پھر وہ خود کو ایک غیر مقبول صدر سے الگ بھی نہیں کرپائیں جس سے ہو سکتا ہے ان کی جیت کے امکانات کم ہو گئے ہوں کیونکہ یہ واضح تھا کہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے۔
وہ کہتے ہیں، ہیرس کو پرائمری انتخابات میں مقابلے کا موقع بھی نہیں ملا کیونکہ صدر بائیڈن پرائمری انتخابات کے بعد انتخابی دوڑ سے الگ ہوئے
ابرامز کے نزدیک ہیرس کو پرائمری انتخابات کے امتحان سے نہ گزارنا ایک بڑی غلطی تھی جس کا بڑا مقصد کمزور پہلوؤں کی نشاندہی ہوتا ہے اور جس سے جیت، ہار کی اہلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہیرس نے اسقاطِ حمل کے حقوق پر بہت زیادہ توجہ دی اور معیشت پر بہت ہی کم۔
SEE ALSO: الیکشن میں کامیابی؛ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دو مقدمات ختم کرنے پر غورریپبلیکن تجزیہ کار جیسن کیبل روکہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر ووٹر بٹے ہوئے تھے اور بہت سے ووٹر اس سے متاثر بھی تھے لیکن آخر میں اگر آپ دیکھیں تو ایک فیصد سے بھی کم امریکی ووٹروں کو کبھی اس سے سابقہ پڑے گا۔ لیکن مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور تنخواہوں کی کمی سے سب ووٹر متاثر ہوئے ہیں۔
یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ کاملا ہیرس کے غیر سفید فام خاتون ہونے کا کتنا اثر ہوا تاہم الیکشن سے پہلے پیو ریسرچ نے جن لوگوں کی رائے حاصل کی ان کا کہنا تھا کہ صنف کا فرق پولنگ پر اثر ڈالے گا۔
نیویارک کے سارہ لارنس کالج میں پولیٹکس اور سوشل سائنس کے پروفیسر سیموئیل ابرامز اس سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ نسل، فرقے یا صنف کے بجائے، ٹرمپ جو پیغام لے کر چلے اس نے ہیرس کے مقابلے میں ملک بھر کے ووٹروں پر زیادہ گہرا اثر کیا۔
|
امریکی انتخابات میں ووٹنگ کے دن تک کے رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے رہے ہیں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کاملا ہیرس کے درمیان مقابلہ سخت ہوگا۔ لیکن آبادی کے کئی طبقوں میں جن میں مرد، خواتین اور لیٹینو ووٹر شامل ہیں، ٹرمپ نے واضح برتری حاصل کی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق، ٹرمپ نے نہ صرف اپنے پکے حامیوں کے ووٹ حاصل کیے بلکہ ان لوگوں میں بھی کامیابی حاصل کی جو روایتی طور پر ڈیمو کریٹس کو ووٹ دیتے ہیں جن میں افریقی امریکی نوجوان، لیٹینو مرد اور عام نوجوان شامل ہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کی انتخابی فتح منصفانہ اور شفاف ہے، بائیڈن کا خطابدوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں جو بات کہی وہ یہی تھی کہ ملک بھر سے ہر طبقے کے لوگ ان کے لیے نکلے۔ انہوں نے کہا لوگ ان کے لیے ملک کے کونے کونے سے آئے جن میں یونین والے، وہ جن کی کوئی یونین نہیں، افریقی امریکی، ہسپانوی امریکی، ایشیائی امریکی، عرب امریکی اور مسلم امریکی سب شامل ہیں۔
انتخابات سے پہلے ٹرمپ پر عدالتوں کی طرف سے مختلف جرائم میں 34 الزامات عائد کیے گئے تھے اور اب وہ 20 سال میں پہلے ایسے ریپبلکن صدارتی امیدوار ہیں جنہوں نے عام لوگوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سیموئیل ابرامز نیویارک کے سارہ لارنس کالج میں پولیٹکس اور سوشل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست کی حالیہ تاریخ میں یہ بات دلچسپ ہے کہ کچھ چیزوں کا اثر ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ اور ان انتخابات میں یہی ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بعض فوجداری الزامات کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امیریکہ کی نامہ نگار ڈورا مہکوار کی رپورٹ۔