صدر ٹرمپ کا مواخذہ: 'بل ٹیلر صاحب، آپ نے جو سنا وہ نہیں ہوا'

سفیر بل ٹیلر سوالات کے جواب دینے کے بعد رخصت ہوتے ہوئے،

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت امریکی ایوانِ نمائندگان میں جمعرات کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہی۔ وہ امریکہ کی تاریخ کے تیسرے صدر بن گئے ہیں جنہیں مواخذے کی سماعت کا سامنا ہے۔

ایوانِ نمائندگان کے ڈیمو کریٹک ارکان نے بدھ کے روز ہونے والی سماعت میں امریکی محکمہ خارجہ کے دو اہم گواہوں کو طلب کیا تھا، تاکہ وہ امریکی عوام کو بتا سکیں کہ صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ 2020 کے صدارتی انتخاب کے حوالے سے اُنہیں سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔

امریکہ کے دو اہم سفارتی اہلکاروں نے پہلی بار ان الزامات کے بارے میں کھلے عام شہادت دی کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین میں امریکہ کی خارجہ پالیسی اپنے ذاتی وکیل روڈی جولیانی کے اختیار میں دے دی، تاکہ وہ ان کے سیاسی مفادات کو آگے بڑھا سکیں۔

سماعت کے دوران، سفیر ولیم ٹیلر کا کہنا تھا، ’’مجھے معلوم ہوا کہ یوکرین کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کا انتظام مبہم اور غیر معمولی ہے۔ خارجہ پالیسی پر عملدرآمد کیلئے دو چینل بنائے گئے۔ ایک معمول کے مطابق اور دوسرا غیر معمولی۔‘‘

سفیر ولیم ٹیلر اور امریکی محکمہ خارجہ میں یوکرین کے امور کے انچارج اعلیٰ عہدیدار جارج کینٹ نے ایوانِ نمائندگان کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کو یوکرین کیلئے 40 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کی بحالی سے زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ یوکرین ان کے سیاسی مخالف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف چھان بین میں مدد کرے۔

ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ، ایڈم شیف کا کہنا تھا کہ مواخذے کی تحقیقات میں جو سوال اٹھائے گئے وہ یہ ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ نے امریکہ کے اتحادی ملک یوکرین کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور یوکرین کو اس سلسلے میں ہمارے انتخابات میں مداخلت کی دعوت دی؟

ایڈم شف نے کہا "کیا صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کیلئے مدعو کرنے یا یوکرین کیلئے فوجی امداد کی فراہمی کو اس بات سے مشروط کیا کہ وہ سیاسی تحقیقات میں مدد دے تاکہ صدر ٹرمپ کو آئندہ صدارتی انتخاب جیتنے میں مدد مل سکے؟ اور اگر صدر ٹرمپ نے ان دونوں میں سے کوئی بھی اقدام اٹھایا، کیا ان کا یہ اقدام ان کے منصب اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتا ہے؟"

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے خود ان سوالات کی اہمیت کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ڈیموکریٹ اس کے لیے اپنے وکلا کو استعمال کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا اشارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قانونی مشیر ڈینئل گولڈمین کی طرف تھا جنہوں نے گواہوں سے کچھ سوالات کیے تھے۔ ڈینئل گولڈمی نے سفیر ولیم ٹیلر سے سوال کیا، ’’آپ کی کئی دہائیوں پر مشتمل فوجی اور سفارتی خدمات کے دوران، جن میں آپ نے دنیا بھر میں امریکہ کی نمائندگی کی، کیا آپ نے کبھی کوئی اور ایسی مثال دیکھی جس میں امریکہ کے صدر کی جانب سے ذاتی اور سیاسی مفاد کی خاطر بیرونی ممالک کیلئے امریکی امداد کو مشروط کیا گیا ہو؟''

اس کے جواب میں ولیم ٹیلر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔

ریپبلکن پارٹی نے بھی گواہوں سے سوالات کیلئے اپنے وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ تاہم، رپبلکن پارٹی کی طرف سے مواخذے کے خلاف دلیل صدر ٹرمپ کے اہم ساتھی کانگریس مین جم جورڈن نے پیش کی جن کا کہنا تھا کہ صدر زیلینسکی کو امریکی امداد کی بحالی کیلئے جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کیلئے رضامند ہونا پڑا اور پھر امداد بحال کر دی گئی۔ لیکن، انہوں نے پھر بھی تحقیقات نہیں کیں۔

اس موقع پر سفیر ٹیلر نے کہا، ’’جورڈن صاحب، میں نے آپ کو جو کچھ بتایا وہ غلط نہیں تھا۔ میں نے یہی کچھ سنا تھا۔ میں نے بس یہی کہا تھا۔‘‘

اس کے جواب میں جورڈن نے کہا کہ ’’یہی تو اہم نکتہ ہے۔ آپ نے جو سنا وہ نہیں ہوا۔ یہ واقعی نہیں ہوا‘‘۔

عوامی جائزوں میں زیادہ تر لوگوں نے مواخذے کی حمایت کی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی مواخذے کی سماعت کے دوران اسی بات کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی سوزن لو بل وچ کا کہنا ہے کہ مواخذہ ایک سیاسی عمل ہے اور آئین کے تحت اسے سیاسی شاخ میں رکھا گیا ہے۔ لہذا، یہ بات اہم ہے کہ اگر ایوان نمائندگان صدر کا مواخذہ کرتا ہے اور چاہے سینیٹ اس کی حمایت کرے یا نہ کرے، عوام اس کا ساتھ دیں گے۔

ایوانِ نمائندگان آئندہ ہفتے کے اختتام تک 9 مزید گواہان کے بیان ریکارڈ کرے گا۔ توقع ہے کہ ایوان اس سال کے آخر تک مواخذے کیلئے ووٹنگ کا انعقاد کرے گا۔ اس اقدام سے صدر ٹرمپ امریکی سینیٹ میں اس سوال کا جواب دیں گے کہ انہیں صدر کے منصب سے ہٹایا جائے یا نہیں۔