صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپیل کورٹ کی جانب سے سفری پابندیوں کے مقدمے میں کڑی چھان بین اور سوال جواب کے بعد بدھ کے روز امریکہ کے عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالتی نظام بہت زیادہ سیاست کے اثر میں آ گیا ہے۔
بدھ کے روز صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں بڑے شہروں کے پولیس کے چند سو سربراہوں اور عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ میں اسے جانبداری یا تعصب نہیں کہوں گا ۔ ابھی تک ہمارے پاس فیصلہ نہیں آیا۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عدالتیں بہت زیادہ سیاسی ہوگئی ہیں۔ اور یہ ہمارے عدالتی نظام کے لیے بہت اچھا ہوگا اگر وہ ہمارا بیان سمجھ سکیں اور وہ کر سکیں جو صحیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال کہ ہے یہ ایک تکلیف دہ دن ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج ہماری سلامتی خطرے میں ہے۔
اپیلز کورٹ کی لازماً یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا صدر ٹرمپ نے اپنے اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے حکم جاری کیا یا انہوں نے امریکی آئین کے ان قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں کی جو کسی ایک مذہب کے مقابلے میں دوسرے مذہب کی حمایت کرنے اور غیر مساویانہ سلوک سے روکتے ہیں اور کیا اس امتیازی پابندی کا مقصد مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے۔
توقع ہے کہ سرکٹ کورٹ اس باریک نکتے پر اپنا فیصلہ دے گی کہ آیا نچلی عدالت کے جج نے صدر کے حکم کی عارضی بندش کے سلسلے میں درست طور پر کارروائی ۔
ایسے میں جب کہ عدالت مقدمے کے دونوں فریقوں کے دلائل کی قوت کو پرکھ سکتی ہے، یہ محض تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے مقدمے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جس میں دو ریاستیں وفاق کے خلاف لڑ رہی ہیں اور 15 ریاستوں ، ایک سو سے زیادہ کمپنیوں ، انسانی حقوق کے گروپس اور ڈیموکریٹکس نے حکم کے خلاف اپنا موقف جمع کرایا ہے، بالآخر سپریم کورٹ میں ہی ہوگا۔
اپیلز کورٹ کے ججوں نے یہ سوال کیا تھا کہ آیا صدارتی حکم نے غیر مناسب طور پر لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہدف بنایا ہے۔
صدر ٹرمپ نے 27 جنوری کو ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان۔ شام اور یمن کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر 90 روز کے لیے اور تمام پناہ گزینوں پر 120 دن کی پابندی لگا دی تھی، جب کہ جنگ زدہ ملک شام کے پناہ گزینوں پر یہ پابندی غیر معینہ مدت کے لیے ہے۔