شی کا دورہٴ امریکہ، ’’عالمی، علاقائی اور باہمی دلچسپی کے امور‘‘ ایجنڈا پر

اِس سے قبل، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے چین کا دورہ کیا، تاکہ شی کے دورے کے لیے میدان ہموار کیا جائے۔ چینی صدر کے ساتھ اُن کی اپنی ملاقات کے دوران، ٹِلرسن نے شی کو بتایا کہ صدر ٹرمپ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر سوجھ بوجھ کو فروغ دینے کےمتمنی ہیں

وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ جمعرات چھ اپریل کو امریکہ کا دورہ کریں گے، جس دِن اُن کی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوگی۔

صدر ٹرمپ دو روز تک اُن کی فلوریڈا میں واقع ’مار اے لاگو‘ کے صحت افزا مقام پر میزبانی کریں گے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں، تفصیل میں نہ بتاتے ہوئےکہا گیا ہے کہ ایجنڈا میں ’’عالمی، علاقائی اور باہمی دلچسپی کے امور‘‘شامل ہوں گے۔

صدارتی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے بارہا چین کے تجارتی انداز کے بارے میں شکایت تھی، چینی اشیا پر سخت گیر درآمدی محصولات عائد کرنے کی دھمکی، اور ملکی سکے کی قدر میں ہیر پھیر کے جرم میں ملوث قرار دیا تھا۔

اِس سے قبل، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے چین کا دورہ کیا ، تاکہ شی کے دورے کے لیے میدان ہموار کیا جائے۔

چینی صدر کے ساتھ اُن کی اپنی ملاقات کے دوران، ٹِلرسن نے شی کو بتایا کہ صدر ٹرمپ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر سوجھ بوجھ کو فروغ دینے کےمتمنی ہیں۔

فروری میں، ٹرمپ نے شی کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو میں امریکہ کی طویل مدتی ’ایک چین‘ پالیسی کا اعادہ کیا تھا، جس کا مقصد اِس متعلق چین میں تشویش میں کمی لانا تھا، جہاں اس امکان کا اظہار کیا گیا تھا کہ شاید تجارت، سکیورٹی اور دیگر حساس معاملوں پر بات چیت میں وہ تائیوان کو متبادل موضوع کے طور استعمال کریں۔ اس پالیسی پر 1979ء سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے، جس کے تحت تائیوان کے ساتھ محض غیر سرکاری مراسم ہیں، جس علاقے پر چین دعوے دار ہے۔

صدر براک اوباما کے دور میں چین اور امریکہ کے مابین تعلقات کشیدہ رہے، جس کا سبب چین کی جانب سے سمندر میں مصنوعی جزیرے کی تعمیر تھا جن کے باعث بحیرہٴ جنوبی چین میں بین الاقوامی جہازرانی کا اثرانداز ہونا، سائبر ہیکنگ اور ایشیا میں امریکہ کی پالیسی میں توازن کا معاملہ اُٹھ کھڑا ہوا۔


لیکن دوسری جانب، موسمیاتی تبدیلی کے حل کے ضمن میں، دونوں ملکوں نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے زیادہ ذمہ دار کے طور پر تعاون کی راہ اپنائی۔ چین نے بدھ کو اعلان کیا کہ وہ آب و ہوا کے معاملے پر اپنے عزم کی پاسداری کرے گا، جب کہ ٹرمپ نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک فریب نظر قرار دیتے ہوئے اس ہفتے اوباما کے اقدامات کو واپس لیا، جن کے تحت کوئلے کے استعمال میں کمی لانے اور تیل کا استعمال بڑھانے کا اقدام کیا گیا تھا۔