صدر ٹرمپ کی افغانستان کے حوالے سے امریکی جرنیلوں پر برہمی

صدر ٹرمپ کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے خطاب کر رہے ہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں 19 برس سے جاری لڑائی میں طالبان تخریب کاروں کو شکست دینے میں ناکامی پر امریکی جرنیلوں پر تنقید کی ہے۔ بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائیندوں سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جرنیلوں کو وہ تمام رقم فراہم کی گئی جو اُنہیں درکار تھی۔ تاہم اُنہوں نے افغانستان میں بہترین کام نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ سے ہزاروں میل دور افغانستان میں خطیر اخراجات کے جواز سے متعلق بھی سوال کیا ہے۔

امریکہ کی طرف سے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی سے متعلق حالیہ رپورٹس کے حوالے سے ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ امریکہ کی طرف سے فوجیوں کے مبینہ انخلاء سے امن بات چیت میں افغان حکومت کی پوزیشن کمزور پڑ سکتی ہے۔ بدھ کے روز جب صدر ٹرمپ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے افغانستان کے مسئلے میں امریکہ کے ملوث ہونے کے بارے میں سوال کھڑے کر دئے۔ اُنہوں نے کہا، ’’روس وہاں کیوں نہیں ہے؟ بھارت وہاں کیوں نہیں ہے؟ اور پاکستان وہاں کیوں نہیں ہے؟ ہم وہاں کیوں ہیں؟ ہم اپنے وطن سے 6,000 میل دور ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں روس نے جو 9 سال تک افغانستان میں جنگ کی تو اُس کا جواز موجود تھا کیونکہ اُس ملک سے دہشت گرد سوویت یونین میں داخل ہو کر وہاں بدامنی پھیلا رہے تھے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ اس جنگ سے سابقہ سوویت یونین دیوالیہ ہو گیا اور بالآخر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں مزید پیسہ خرچ کرنے کے حوالے سے سابق وزیر دفاع جنرل میٹس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’ جنرل میٹس نے 700 ارب ڈالر فراہم کرنے پر میرا بھرپور شکریہ ادا کیا۔ اُنہیں اس کا یقین نہیں تھا۔ جنرل میٹس نے اگلے برس میرا مزید شکریہ ادا کیا جب میں نے اُنہیں 716 ارب ڈالر فراہم کئے۔ اُنہیں اس کا بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ لیکن اُنہوں نے جواب میں میرے لئے کیا کیا؟ اُنہوں نے افغانستان میں کیا کیا؟ یقیناً کوئی زیادہ اچھا کام نہیں کیا۔

صدر ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق امریکی فوج کی حکمت عملی کے کچھ پہلوؤں پر بھی تنقید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جرنیلوں کو چار یا پانچ ہفتے قبل کچھ علاقوں کے بارے میں بتایا جہاں طالبان اور داعش موجود تھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اُن کا کپنا تھا، ’’میں نے اُن سے کہا کہ وہ اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف کیوں لڑتے نہیں دیتے؟ ہم اس میں کیوں مداخلت کر رہے ہیں؟ میں نے اُن سے کہا کہ اُنہیں لڑنے دیں کیونکہ یہ دونوں ہمارے دشمن ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جناب ہم اسے روکنا چاہتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے مداخلت کی اور اُن کے درمیان لڑائی روک دی۔ یہ سب سے عجیب بات ہے جو میں کبھی دیکھی ہو۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کے فوجی منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہئیے اور یوں اُنہیں دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہئیے۔

امریکی اہلکاروں نے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں طالبان کے نمائیندوں سے ملاقات کی تاکہ متحارب گروہوں کے درمیان امن بات چیت کو آگے بڑھایا جا سکے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں کے ترجمان کرنل ڈیوڈ بٹلر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں لڑائی ختم کرنے کیلئے اس سال ایک اچھا موقع ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سنہ 2019 افغانستان میں ایک خاص اور منفرد موقع فراہم کر تا ہے۔ اور اُن کے میرے خیال میں سب نے امن بات چیت میں پیش رفت دیکھی ہے۔ یوں افغانستان اور طالبان کیلئے قیام امن کے سلسلے میں ایک حقیقی اور سنجیدہ موقع موجود ہے۔

افغانستان میں امن کے سمجھوتے سے وہاں 40 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہے۔