امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ ایران سے مذاکرات کے لیے اس پر عائد پابندیاں ختم نہیں کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی رات کو تاخیر سے ایک ٹوئٹ میں یہ بیان جاری کیا۔ جو کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے جرمن خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو کا جواب معلوم ہوتا ہے۔
وزیر امور خارجه ایران می گوید ایران خواستار مذاکره با ایالات متحده است اما می خواهد که تحریم ها برداشته شود. @FoxNews @OANN نه، مرسی! https://t.co/fWdjR1DcUc
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) January 26, 2020
امریکی صدر کے انگریزی اور فارسی میں کیے گئے ٹوئٹس میں کہا گیا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے مذاکرات کرنا چاہتا ہے لیکن وہ پابندیوں کے خاتمے کا خواہاں ہے۔ نہیں شکریہ۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی صدر کے بیان کے بعد انٹرویو کا کچھ حصہ ٹوئٹ کیا اور ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر کے لیے بہتر مشورہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی سے متعلق بیانات اور فیصلے حقائق کی بنیاد پر کریں۔ بجائے اس کے کہ وہ فاکس نیوز کی خبروں کہ شہہ سرخیوں اور فارسی مترجم کی بنیاد پر کچھ کریں۔
.@realdonaldtrump is better advised to base his foreign policy comments & decisions on facts, rather than @FoxNews headlines or his Farsi translatorsTo be better informed, he can read my entire interview (in English) https://t.co/eZR8NzuWXVToo many words? Then just read this: pic.twitter.com/URkbUll49P
— Javad Zarif (@JZarif) January 26, 2020
خیال رہے کہ واشنگٹن اور تہران میں کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب امریکہ نے عراق میں ایک فضائی حملے میں ایران کے اہم ترین جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا۔ حملے میں وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کارروائی کے بعد ایران نے بھی عراق میں اس فوجی بیس پر میزائل داغے جس میں امریکی فوج موجود تھی تاہم میزائل حملے سے قبل امریکی فوج نے بیس خالی کر دیا تھا جس سے وہاں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا البتہ کچھ فوجی زخمی ہوئے۔
ایران اور امریکہ میں کشیدگی اس وقت دوبارہ بڑھنا شروع ہوئی تھی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جاری جوہری تخفیف کے معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد امریکہ نے ایران پر تیل کی برآمدات سمیت مختلف معاشی پابندیاں عائد کیں جس سے تہران کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مئی 2018 میں امریکہ کو 2015 کے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے بین الاقوامی سمجھوتے سے الگ ہوتے وقت کہا تھا کہ یہ معاہدہ تباہ کُن تھا۔ اس معاہدے سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔ نئے سمجھوتے پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ایران بیلسٹک میزائل تجربات بند کرے جب کہ شام، یمن، اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات پر فوجی مداخلت سے باز رہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں 6 جنوری 2020 کو وائٹ ہاؤس کی سینئر مشیر کیلی این کانوے نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ایران کے ساتھ نیا جوہری سمجھوتہ طے کرنے کے بارے میں پر امید ہیں۔
ان کا یہ بیان ایران کی طرف سے 2015 میں طے کیے گئے جوہری معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کے اعلان کے ایک روز بعد سامنے آیا تھا۔
ایران کو 2015 کے معاہدے کے تحت یورینیم کی افزودگی 3.67 فی صد تک محدود رکھنے کا پابند بنایا گیا تھا جب کہ ایران حالیہ مہینوں میں یہ شرح 4.5 فی صد تک محدود رکھتا رہا ہے جو ایٹم بم بنانے کے لیے درکار 90 فی صد افزودگی کی سطح سے بہت کم ہے۔ جوہری معاہدے سے قبل ایران یورینیم کو 20 فی صد کی سطح تک افزودہ کر رہا تھا۔