|
واشنگٹن ڈی سی -- ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد پہلے روز کئی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں جن میں امیگریشن اور بارڈر سیکیورٹی سے نمٹنے کے لیے کئی آرڈرز بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ کے دستخط کردہ آرڈرز کو ان کے آفیشلز "کامن-سینس امیگریشن پالیسیز" قرار دے رہے ہیں۔ ان احکامات میں امریکہ کی جنوبی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی کا نفاذ، مسلح افواج کی تعیناتی، سرحدی دیوار کی تعمیر، پناہ گزین پروگرام ختم کرنے اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی پیدائشی شہریت کا خاتمہ اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔
اپنے افتتاحی خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمارے پاس ایسی حکومت ہے جس نے غیر ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لامحدود فنڈنگ فراہم کی ہے۔ لیکن امریکہ کی سرحدوں یا سب سے اہم اپنے لوگوں کے تحفظ کو اہمیت نہیں دی۔"
اس سے قبل ٹرمپ حکومت سے منسلک عہدے داروں نے صحافیوں سے گفتگو میں انتظامیہ کے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا جسے انہوں نے امریکہ-میکسیکو سرحد پر "نیشنل سیکیورٹی اور پبلک سیفٹی کرائسز" (قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے بحران) کے طور پر بیان کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ بننے والے ایک عہدے دار نے وائٹ ہاؤس آمد پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ صدر ٹرمپ کو ایک مضبوط مینڈیٹ کے تحت منتخب کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کریں جس میں جنوبی سرحد کو محفوظ بنانے اور جرائم پیشہ تارکینِ وطن کی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری کا وعدہ شامل ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں شامل عہدے داروں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انتظامیہ اپنے وعدے کے مطابق امریکی تاریخی کی سب سے بڑی جرائم پیشہ تارکینِ وطن کی ملک بدری کا عزم رکھتی ہے۔
سرحد پر قومی ایمرجنسی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکہ میکسیکو سرحد پر نیشنل گارڈز سمیت فوج کو تعینات کریں گے تاکہ موجودہ قانون نافذ کرنے والے افسران کی معاونت کی جائے۔
حکام زور دیتے ہیں کہ سرحدی سیکیورٹی قومی سلامتی ہے اور انتظامیہ فوج کو استعمال کر کے سرحد کو محفوظ بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مسلح افواج کی تعیناتی کرتا ہے اور سرحد کے ساتھ دیوار کو مکمل کرنے کے لیے (محکمۂ دفاع) اور (محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی) کے سیکریٹریز کو ہدایت دے کر رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ ان کے بقول ہم 'ریمین ان میکسیکیو' ( میکسیکیو میں رہیں) پالیسی کو دوبارہ بحال کرنے جا رہے ہیں۔
'میکسیکو میں رہیں' کی پالیسی ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور میں بنائی گئی تھی جس کے مطابق جنوبی سرحد پر پناہ کے متلاشی بعض افراد کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ امریکی عدالتوں میں اپنے کیسز کی شنوائی تک میکسیکو میں ہی رہیں۔
میکسیکو کے خارجہ تعلقات کے سیکریٹری رامون دی لا فنتے نے پیر کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اس پالیسی کی بحالی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی برقرار رہیں۔
SEE ALSO: صدر ٹرمپ نے پیرس کلائمیٹ چینج معاہدے سے علیحدگی سمیت متعدد ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر دیےادھر ٹرمپ انتظامیہ سے منسلک عہدے داروں نے سرحد پر تعینات کرنے والے فوجیوں کی تعداد سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ فیصلہ وزیرِ دفاع کریں گے۔
نئی انتظامیہ یو ایس امیگریشن اینڈ کسمٹرز انفورسمنٹ اور یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ایجنٹس کو توسیعی نفاذ کے اختیار دے کر بائیڈن حکومت کی سرحدی پالیسیوں کو بھی منسوخ کر رہی ہے۔
ریاست اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے فیڈرل ٹاسک فورسز بھی قائم کر رہی ہے۔
بڑے پیمانے پر ملک بدری
انتظامیہ کا ایک اور اعلان ملک بھر میں غیر دستاویزی تارکینِ وطن سے متعلق ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک سے بڑے پیمانے پر غیر دستاویزی تارکینِ وطن کو بے دخل کریں گے۔
صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ٹرمپ انتظامیہ سے منسلک عہدے داروں نے کہا کہ انتظامیہ امیگریشن افسران کو موجودہ قوانین کو نافذ کرنے کے لیے ضروری "اختیارات" دے گی۔
ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران جو بائیڈن کی ملک بدری کی اس پالیسی کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جس میں مجرمانہ ریکارڈ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس کے برعکس پالیسی کو تمام غیر دستاویزی تارکینِ وطن تک بڑھایا جائے گا۔
کورنیل لا اسکول میں امیگریشن لا کے ریٹائرڈ پروفیسر اسٹیفن ییل لوئہر نے وی او اے کو ایک ای میل میں بتایا کہ بڑے پیمانے پر بے دخلی کی کوششیں اور چھاپے زیادہ توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ملک بدری میں تیزی سے اضافہ نہیں ہوگا۔
SEE ALSO: امریکی سینیٹ سے وزیرِ خارجہ کی منظوری: مارکو روبیو ٹرمپ کابینہ کے پہلے رکن بن گئےانہوں نے لکھا کہ اگر ایک شخص کے پاس پہلے سے ہی ملک بدری کا حکم موجود ہے تو اسے فوری طور پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ نسبتاً کم تعداد میں ہیں۔
ان کے بقول جن لوگوں کو پکڑا جائے گا انہیں امیگریشن عدالتوں میں ملک بدری کی سماعتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان عدالتوں میں پہلے ہی لاکھوں کیسز کا بیک لاگ ہے۔
اُن کے بقول اس بیک لاگ کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کو یہ پتا لگنے میں برسوں لگیں گے کہ انہیں ملک بدر کیا جائے گا یا پناہ یا دیگر کسی اور قسم کے تحفظ کی بنیاد پر رہنے کی اجازت دی جائے گی۔
تارکینِ وطن کی رہائی
نئی انتظامیہ نے ایسے تارکینِ وطن جن کے مقدمات امیگریشن عدالت میں سماعتوں کے منتظر ہیں انہیں امریکہ میں رہنے کی اجازت دینے کے عمل کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسے عام طور پر "کیچ اینڈ ریلیز" کہا جاتا ہے۔
پناہ گزینوں کا پروگرام
ٹرمپ مہاجرین کی آبادکاری کا پروگرام بھی ختم کر رہے ہیں۔
چرچ ورلڈ سروس میں پروگرامز کے سینئر نائب صدر ایرول کیکک نے صحافیوں کو کی گئی ایک ایک میل میں کہا ہے کہ ان کے گروپ نے صدر ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس پر نظرِثانی کریں۔
چرچ ورلڈ سروس مہاجرین کی آباد کاری میں شامل ان نو ایجنسیوں میں سے ایک ہے جسے وفاقی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ مہاجرین کی معاونت کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پروگرام میں ایک مختصر وقفہ بھی تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ممالک میں ظلم و تشدد سے بچ کر ہماری عظیم قوم میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔
پناہ اور سی بی پی ون ایپ کا خاتمہ
ٹرمپ کے احکامات میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ ان تارکینِ وطن کو فوری طور پر ملک بدر کیا جائے جنہوں نے اسائلم افسر کے پاس اپنا مقدمہ پیش کرنے کے موقع سے قبل ہی غیر قانونی طور پر سرحد عبور کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انوگریشن کے کچھ دیر بعد ہی امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن نے اپنی ویب سائٹ پر ایک نوٹس پوسٹ کیا جس میں کہا گیا کہ ایجنسی اب 'سی بی پی ون' ایپ استعمال نہیں کر رہی ہے۔
اس ایپ نے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو کام کرنے کی سہولت کے ساتھ امریکہ میں قانونی طور پر داخلے میں سہولت فراہم کی ہے۔
یہ ایپ تارکینِ وطن کو سرحد پر آنے اور انسانی بنیادوں پر پرول یا دیگر قانونی کارروائیوں کے طریقوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت دیتی تھی۔
سی بی پی ون سسٹم کے تحت پرول کا استعمال بائیڈن انتظامیہ کی وسیع کوششوں کا حصہ تھا تاکہ ہجرت کے بہاؤ کو منظم کیا جائے اور لوگوں کے غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرنے کے بجائے انہیں داخلے کے قانونی راستے فراہم کیے جائیں۔
تاہم سی بی پی ون کے ذریعے دیا جانے والا پرول مستقل قانونی حیثیت کی ضمانت نہیں ہوتا تھا۔ اس سے عام طور پر لوگوں کو عارضی رہائش کی اجازت دی جاتی تھی جب کہ کچھ کیسز میں تب تک لوگوں کو کام کرنے کی درخواست دینے کی اجازت دی جاتی تھی جب تک ان کی امیگریشن حیثیت کا جائزہ لیا جا رہا ہو۔
سی بی پی ون ایپ کے نوٹس میں یہ بھی تصدیق کی گئی ہے کہ تمام موجود اپائنمنٹس کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
پیدائشی حقِ شہریت
ڈونلڈ ٹرمپ نے بعض کیسز میں پیدائشی حقِ شہریت کو ختم کرنے کے حکم نامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔
پیدائشی حقِ شہریت امریکی سر زمین پر پیدا ہونے والے ہر فرد کو امریکی شہریت کا حق دیتی ہے۔ یہ حق امریکی آئین کی 14 ویں ترمیم کے ذریعے دیا گیا تھا۔
تارکینِ وطن کی وکالت کرنے والے گروپس ان پالیسیوں کے مضمرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم اے سی ایل یو آف نارتھ کیرولائنا نے پریس کو لکھی گئی ایک ای میل میں کہا ہے کہ وہ "تیار ہے۔"
ای میل میں کہا گیا ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر ملک بدری کے پیشِ نظر تارکینِ وطن کے حقوق کا دفاع کریں گے۔