امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات: ریپبلکن امیدواروں کا پہلا انتخابی مباحثہ، ٹرمپ شرکت نہیں کریں گے

سابق صدر ٹرمپ۔ فائل فوٹو

امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کے درمیان پہلا مباحثہ، بدھ کے روز امریکی ریاست وسکانسن کے شہر ملواکی میں ہو رہا ہے۔ اور فی الوقت سب سے زیادہ مقبولیت کے حامل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس مباحثے میں حصہ نہیں لیں گے۔

امریکہ میں 2024 صدارتی انتخابات کا سال ہے۔اپوزیشن کی ریپبلکن پارٹی میں متعدد اراکین نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے جن میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔

ریپبلکن پارٹی کے ضابطوں کے تحت نو امیدوار اس مباحثے میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے ہیں۔

امریکہ میں انتخابی روایت کے مطابق ایک ہی پارٹی میں صدارت کے ایک سے زیادہ امیدواروں میں سے ایک ایسے امیدوار کا انتخاب کیا جاتا ہے جو حتمی طور پر صدارتی انتخاب میں دوسری پارٹی کے امیدوار کا مقابلہ کرتا ہے۔

SEE ALSO: ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن مباحثوں میں شرکت کیوں نہیں کریں گے؟

اس ایک امیدوار کے انتخاب سے پہلے مختلف ریاستوں میں مباحثوں کا اہتمام کر کے پارٹی میں امیدواروں کو اپنا موقف اور اپنا منشور بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ مباحثے میڈیا پر نشر کیے جاتے ہیں تاکہ ووٹروں کو کسی بھی امیدوار کی حمایت کے فیصلے میں آسانی ہو۔

ٹرمپ کے انکار کا فاکس نیوز پر اثر

سابق صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ کسی اور کے لیے نہ سہی مگر امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کے لیے ایک جھٹکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس میں بھی مباحثے کے میزبانوں بریٹ بائیر اور مارتھا میکلم کو شاید کوئی فرق نہ پڑے کیونکہ وہ تیاری ہی اس انداز سے کر رہے تھے کہ ٹرمپ شریک ہوتے ہیں تو مباحثہ کیسا ہوگا اور اگر شریک نہیں ہوتے تو کیسا ہوگا۔

بات اتنی معمولی بھی نہیں، فاکس نیوز وہ چینل ہے جو دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاستدانوں کا محبوب رہا ہے اور ٹرمپ کے دور میں ان کی انتطامیہ کی پالیسیوں کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔

فاکس نیوز پر ٹرمپ سے متعلق ہیڈ لائن فائل فوٹو 28نومبر2018 فوٹو اے پی

فاکس نیوز کی بہت سی معتبر شخصیات اس موسمِ گرما سابق صدر ٹرمپ پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ اس مباحثے میں ضرور حصہ لیں۔ مگر ٹرمپ نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ وہ اس مباحثے میں شریک ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔

انہوں نے کہا،"لوگ جانتے ہیں میں کون ہوں اور کتنا کامیاب صدر رہا ہوں اس لیے میں ڈیبیٹ نہیں کروں گا۔"

سابق صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے امکان ہے کہ فاکس نیوز کو اپنے بے شمار ناظرین سے محروم ہونا پڑے گا کیونکہ اس سے پہلے 2015 میں جب ٹرمپ نے 2016 کے صدارتی انتخاب کے امیدوار کے طور پر پہلے مباحثے میں حصہ لیا تھا تواسے فاکس نیوز پر 24 ملین یعنی لگ بھگ ڈھائی کروڑ لوگوں نے دیکھا تھا۔

نیٹ ورک کے لیے اس سے بھی بڑھ کرجھٹکے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ اسی روز یعنی بدھ کو ہی فاکس نیوز کے سابق پروگرام ہوسٹ ٹکر کارلسن کو آن لائن ایک انٹرویو دے رہے ہیں۔

ٹرمپ فاکس نیوز کے سابق پروگرام ہوسٹ ٹکر کارلسن کے ساتھ۔ فوٹو اے پی، 31 جولائی 2022

کارلسن فاکس نیوز کے سابق سٹار میزبان ہیں اور اپریل میں فاکس نیوز نے انہیں ملازمت سے فارغ کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنا آن لائن شو شروع کیا تھا۔

اگرچہ چینل نے کارلسن کو ملازمت سے برخواست کرنے کی وجہ نہیں بتائی تاہم ایسا فاکس نیوز اور ڈومینین ووٹنگ سسٹم کے درمیان ایک مقدمے کے خاتمے کے بعد کیا گیا جس میں فاکس نیوز نے ڈومینین کو 787.5ملین ڈالر ادا کرنے پر رضا مندی ظاہرکی تھی۔

ڈومینین نے یہ کہہ کر مقدمہ داخل کیا تھا کہ فاکس نیوز نے 2020کے صدارتی انتخابات کے بعد ووٹنگ فراڈ کے ٹرمپ کے دعووں کو ہوا دی اور چینل کی کوریج ڈومینین کے ووٹنگ سسٹم کے لیے بدنامی کا باعث بنی۔

لیکن مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی فاکس نیوز نے ڈومینین سے رقم ادا کرنے کی بنیاد پر سمجھوتہ کر لیا ۔

اگرچہ اس رقم کی ادائیگی سے چینل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن اس کے بعد اس انتہائی مقبول چینل کے بارے میں مہینوں پریشان کن شہ سرخیاں لگتی رہیں۔

اب خیال کیا جا رہا تھا کہ ریپبلکن امیدواروں کی یہ پہلی ڈیبیٹ چینل کے لیے ایک مرتبہ پھرروشن منارہ ثابت ہو گی مگر ٹرمپ کے شرکت سے انکار نے یہ تاثر ڈانواڈول کر دیا ہے۔

امیدواروں کا ٹرمپ پر نکتہ چینی سے گریز

وائس آف امریکہ کے اسٹیو ہر مین کی رپورٹ کے مطابق نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی کے سوا ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے ٹرمپ کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ہو۔

دیگر میں فلوریڈا کے گورنر ران ڈیسانٹیس ہیں جو مقبولیت میں ٹرمپ کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں اور ساؤتھ کیرولائینا کی سابق گورنر نکی ہیلی، دونوں ہی بہت بچ بچا کر ٹرمپ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اور ٹرمپ کے نعرے، امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں (Make America great again)کے حامیوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بھی 'امریکہ کو عظیم بنانے' کی اہلیت رکھتے ہیں۔

پھر ٹرمپ کے سابق نائب صدر مائیک پنس ہیں جو ٹرمپ کی خواہش کے خلاف 2020 کے صدارتی انتخاب کی توثیق کے اپنے فیصلے کا اب تک دفاع کررہے ہیں۔

ان کے علاوہ ڈیبیٹ میں حصہ لینے کے اہل امیدواروں میں اوہائیو کے بزنس مین وویک راماسوامی، ساؤتھ کیرولائینا کے سینیٹر کم سکاٹ، نارتھ ڈیکوٹا کے گورنر ڈگ برگم اور آرکنسا کے سابق گورنر آسا ہچنسن شامل ہیں۔

ٹرمپ شامل نہ ہوکر بھی شامل

سابق صدر ٹرمپ پر چار فوجداری مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔ کیا ملواکی کے مباحثے میں ان مقدمات کا ذکر ہوگا یا نہیں، یہ ایک کھلا سوال ہے اور اس کا انحصار اس پر ہے کہ شرکاء کس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ اس کا ذکر ہوگا ضرور۔

نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی نے ٹرمپ کے ڈیبیٹ میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں کرسٹی نے کہا،"حیرت۔۔۔حیرت۔۔۔ وہ شخص جو چار مقدموں میں ضمانت پر ہے اور اپنے شرمناک طرزِ عمل کا دفاع نہیں کر سکتا، مباحثے کے سٹیج سے چھپ رہا ہے۔۔۔ڈر کر بھاگ رہا ہے۔"

ٹرمپ کی سابق پریس سیکریٹری کیلی میک ایننی نے پیر کے روز فاکس نیوز پر کہا کہ مباحثے میں حصہ نہ لینے کا ٹرمپ کا فیصلہ " ایک بڑی سیاسی غلطی ہے "

لیکن ٹرمپ کو پورا ادراک ہے کہ وہ مباحثے کے سٹیج پر موجود ہوں یا نہ ہوں ذکر ان کا ہی رہے گا۔

( اس مضمون میں کچھ مواد اے پی اور وائس آف امریکہ کے اسٹیو ہرمین کی رپورٹ سے لیا گیا)