کیا صدر ٹرمپ شام پر میزائل حملہ کردیں گے؟

صدر ٹرمپ نے روس کو متنبہہ کیا ہے کہ وہ شام کے اندر کیمیائی حملے کرنے والوں کا ساتھ نہ دیں اور ساتھ ہی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے ’’ روس تیار ہو رہو، میزائل آ رہے ہیں، بہترین، جدید اور سمارٹ‘‘

دوسری جانب روس نے بھی خبردار کیا ہے کہ شام کی جانب آنے والے تمام میزائلوں کو مار گرائے گا۔

صدر ٹرمپ کا ٹویٹ محض انتباہ ہے یا اس پر عمل درآمد بھی ہو سکتا ہے؟ ردعمل کیا ہو گا؟ وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اسد حسن کے ساتھ گفتگو میں ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ صورتحال بہت پیجیدہ ہے، صدر ٹرمپ کے واضح اعلان کے بعد شام پر امریکہ کے حملہ کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورتوں میں نتائج سنگین ہیں۔

’’ اب جبکہ صدر ٹرمپ نے حملے کا اعلان کر دیا ہے تو بدقسمتی سے یہ حملہ ہو کر رہے گا۔ اگر حملہ نہیں ہوتا تو پھر (صدر ٹرمپ کی) ساکھ کو مزید دھچکہ پہنچے گا‘‘۔

زبیر اقبال کے بقول امریکہ کے صدر ٹرمپ کے بیانات میں تضاد ناتجربہ کاری کے عکاس ہیں

’’ یہ ناتجربہ کاری ہے۔ ان کے مشیروں کو چاہیے کہ مناسب سمت کی جانب ان کی راہنمائی کریں۔ ناتجربہ کاری بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ کیونکہ دوسرے ملک اس کو اس نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو پالیسیوں میں لڑکھڑاہٹ یا تذبذب کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ملکوں کے لیے اس کے بہت خطرناک نتائج ہوا کرتے ہیں‘‘۔

پاکستان سے تجزیہ کار، سابق سفیر ظفر ہلالی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے شام پر میزائل حملے کے عندیہ پر تنقید کی اور کہا کہ امریکہ وہیں حملے کیا کرتا ہے جہاں اسے یقین ہو کہ جواب میں حملہ نہیں کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہو کہ جواب میں کاروائی ہو گی تو وہاں وہ بات چیت کیا کرتا ہے۔ اس ضمن میں شمالی کوریا کی مثال واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام پر میزائل حملہ ان کے الفاظ میں احمقانہ فیصلہ ہو گا جس کے حق میں دلائل نہیں دیے جا سکتے۔

سال 2013 میں اوباما انتظامیہ بھی شام پر اس وقت حملے پر سوچ بچار کرتی رہی ہے جب صدر بشارالاسد نے امریکہ کی جانب سے متعین کردہ سرخ لکیر پار کی تھی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔