امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب دنیا کے اہم ملک مصر کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کو ختم کرتے ہوئے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑائی میں تعاون فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے پیر کو وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی جو کہ 2009ء میں سابق صدر براک اوباما کی طرف سے اُس وقت کے مصری صدر حسنی مبارک کی یہاں ہونے والی ملاقات کے بعد کسی بھی مصری قائد کا پہلا دورہ امریکہ ہے۔
اوول آفس میں جب دونوں راہنما ایک ساتھ بیٹھے تو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "ہم مصر اور مصر کے عوام کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ہم اپنی فوج کو تروتازہ کر رہے ہیں، اور جناب صدر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری صورت میں امریکہ میں آپ کا ایک عظیم دوست اور اتحادی موجود ہے۔"
اس پر السیسی نے دہشت گردوں کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے پر ٹرمپ کے لیے احترام کا اظہار کیا۔
"آپ دہشت گردی کے خلاف بہت مضبوطی سے کھڑے ہیں، اس شیطانی نظریے کے خلاف جو معصوم زندگیوں کو ختم کر رہا، جو برادریوں اور اقوام کے لیے تباہی لا رہا ہے اور معصوم لوگوں کو دہشت زدہ کر رہا ہے۔"
مصری صدر کا مزید کہنا تھا کہ "انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں" امریکہ، مصر کو اپنے ساتھ کھڑا پائے گا۔
بعد ازاں وائٹ ہاوس کے ترجمان جان سپائسر نے صحافیوں کو بتایا کہ "صدر ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ امریکہ اور مصر کے درمیان تعلقات میں ایک نیا دن ہے۔"
تاہم سپائسر نے یہ واضح نہیں کیا کہ انسداد دہشت گردی کی مشترکہ حکمت عملی کیا ہو گی جس پر تعاون بڑھانے سے متعلق اتفاق کیا گیا۔
نہ تو سپائسر اور نہ ہی کسی اور راہنما نے مصر میں انسانی حقوق سے متعلق صورتحال کا تذکرہ کیا۔ اوباما دور میں یہ معاملہ تعلقات میں سردمہری کی ایک بڑی وجہ رہا۔