ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی سے مسلمان خاتون کا اخراج

فائل

'کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز' مسلمانوں کے حقوق کا پاسبان گروپ ہے۔ تنظیم نے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے ٹرمپ سے معذرت کے لیے کہا ہے۔ بقول اُن کے، 'ایک مسلمان خاتون کو ایک سیاسی ریلی سے بے عزت کرکے نکالنا مسلمان امریکیوں کو بہت خراب پیغام دیتا ہے'

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں جمعے کو حجاب پہنے ہوئے ایک مسلمان خاتون کو اُس وقت باہر نکال دیا گیا جب اُنھوں نے ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے خلاف خاموش مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ نے دسمبر میں کہا تھا کہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔

پولیس نے 56 برس کی روز حامد کو گھیرے میں لے لیا، جب سائوتھ کیرولینا کے شہر روک ہِل میں انتخابی ریلی نکالی گئی۔ وہ ایک اور خاتون کے ہمراہ خاموش کھڑی تھیں، جب ٹرمپ شام کے مہاجرین کے امریکہ میں داخل ہونے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

'سی این این' نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ روز حامد ٹرمپ کی پشت والی قطار میں کھڑی تھیں، جب اُنھوں نے کہا کہ شام میں لڑائی سے بچنے کے لیے شامی دوسرے ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں، اُن میں سے کئی لوگوں کا داعش کے شدت پسند گروہ سے تعلق ہے۔

ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی تصاویر میں، روز حامد نے اپنا سر ڈھانپہ ہوا تھا اور کپڑا پہنا ہوا تھا جس کے ایک ٹکڑے پر تحریر تھا: 'سلام۔ میں امن کا پیغام لے کر آئی ہوں'۔ کپڑے پر زرد رنگ میں 'اسٹار آف ڈیوڈ' لکھا تھا، جو اُس علامت کی یاد تازہ کرتا ہے جب ہولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کو یہ پہنایا جاتا تھا۔ ستارے کے اندر لفظ 'مسلم' درج تھا۔

وڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا کہ زور حامد کو ریلی سے باہر نکالا جارہا ہے، ایسے میں جب ٹرمپ کے حامی ٹرمپ کے نام کے'بیجز' لہرا رہے ہیں، اور کچھ نے خاتون کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔

بعدازاں، روز حامد نے 'سی این این' کو بتایا کہ ایک شخص نے کہا: 'باہر نکل جائو۔ کیا تمہارے پاس بم ہے؟'۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ جب اُنھیں باہر لے جایا جا رہا تھا، ایک خاتون اُن کے قریب آئیں، ہاتھ ملایا اور معذرت کرتے ہوئے کہا، 'مجھے افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ اس قسم کا رویہ برتا جا رہا ہے'۔

اُنھوں نے نیٹ ورک کو بتایا کہ وہ صدق دل سے یہ سمجھتی ہیں کہ اگر لوگوں سے بالمشافیٰ ملا جائے تو وہ ایک دوسرے سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔ اُنھوں نے کہا اِس واقعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر آپ نفرت آمیز کلمات کہیں گے تو مجمعے پر اُس کے بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

'کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز' مسلمانوں کے حقوق کا پاسبان گروپ ہے۔ تنظیم نے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے ٹرمپ سے معذرت کے لیے کہا ہے۔ بقول اُن کے، 'ایک مسلمان خاتون کو ایک سیاسی ریلی سے بے عزت کرکے نکالنا مسلمان امریکیوں کو بہت خراب پیغام دیتا ہے۔'

ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے فوری طور پر اِس معاملے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے یہ بات کہی ہے کہ 'لوگوں میں ہمارے خلاف نفرت ہے، جو حیران کُن ہے۔ ہماری جانب سے ایسا نہیں ہے، بلکہ اُن کی جانب سے ہی ایسا ہے'۔

گذشتہ ماہ، ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا، اور یہ کہ یہ بندش اُس وقت تک رہنی چاہیئے جب تک حکومت کیلی فورنیا کی مہلک شوٹنگ کے معاملے کے بارے میں مسلمانوں کے رویے پر سوچ بچار نہ کرلے کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔اس تجویز کا اعلان کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ تھا رائے عامہ کے اعداد و شمار سے بتاتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کی ایک بڑی آبادی امریکیوں کے لیے نفرت کے جذبات رکھتی ہے۔

ٹرمپ کے لیے کُھل کر مسلمان مخالف بیان دینا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ مساجد پر نگاہ رکھی جائے، جب کہ اُنھوں نے اپنی وہ پہلی تجویز مسترد نہیں کی جس میں کہا گیا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کے مسلمانوں کے ناموں پر مشتمل ایک ڈیٹا بیس قائم کیا جائے۔