امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد روکنے کے لیے تاحال میکسیکو کے ساتھ سرحد بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل صدر نے گزشتہ ہفتے امریکہ میکسیکو سرحد پر تارکینِ وطن کی مسلسل آمد پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے سرحد مکمل طور پر بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
صدر کے اس عندیے پر امریکہ کی کئی بڑی کمپنیوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا جنہیں خدشہ تھا کہ سرحد کی بندش سے خام مال کی ترسیل متاثر ہوسکتی ہے۔
بظاہر تاجر اور سیاسی حلقوں کے دباؤپر صدر نے منگل کو اپنے موقف پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تاحال سرحد کی بندش کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
منگل کی شب واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ وہ واقعی میں سرحد بند کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں حالات دیکھ کر کریں گے۔
اس سے قبل اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر نے غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کو روکنے کے لیے میکسیکو کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔
صدر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ کئی برس بلکہ دہائیوں بعد میکسیکو اپنی جنوبی سرحد پر غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار کر رہا ہے۔
سرحد کی بندش کی دھمکی کے بعد میکسیکو کی حکومت نے رواں ہفتے کہا تھا کہ وہ تارکینِ وطن کے بہاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
امریکہ کے چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے ذریعے روزا نہ لگ بھگ ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی مصنوعات اور خدمات کی ترسیل ہوتی ہے جب کہ روزانہ لگ بھگ پانچ لاکھ مزدور، طلبہ، خریدار اور سیاح قانونی طور پر سرحد پار کرتے ہیں۔
منگل کی شب اپنے خطاب میں صدر نے اعتراف کیا کہ سرحد کی بندش کے معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ لیکن ان کے بقول "سلامتی زیادہ اہم ہے۔ سلامتی میرے نزدیک تجارت سے زیادہ اہم ہے۔"
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز کا کہنا ہے کہ امریکی حکام سرحد کی بندش سے متعلق تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے مشیر سرحد پر داخلے کے بعض مقامات کی بندش اور اس کے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔
غربت اور سیاسی عدم استحکام کا شکار لاطینی ممالک – خصوصاً گوئٹے مالا، ہونڈراس اور ایل سلواڈور کے ہزاروں تارکینِ وطن گزشتہ کئی ماہ سے میکسیکو کے راستے امریکہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ سیاسی پناہ حاصل کرسکیں۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد روکنا صدر ٹرمپ کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے جس کے لیے حکومت ماضی میں تارکینِ وطن بچوں کی ان کے والدین سے علیحدگی سمیت کئی سخت اقدامات کرچکی ہے۔