امریکہ کے معروف تھنک ٹینک ’’سٹمسن سینٹر‘‘ میں جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر اور سینئر فیلو ایلزبتھ تھریلکلڈ کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش سنجیدہ نہیں ہے اور اسے نظر انداز کر دیا جانا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی اس پیشکش سے ہو سکتا ہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے میں کسی قدر عجلت سے کام لیا ہو لیکن ایسا ہونا غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ بھارت کی حکمران بھارتہ جنتا پارٹی کے منشور میں یہ بات پہلے سے موجود تھی اور انتخابات کی مہم کے دوران بھی اس کا بار بار ذکر کیا گیا تھا۔
ایلزبیتھ تھریلکلڈ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ بھارت کے اس اقدام کے اثرات کئی برس تک شدت سے محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ تاہم اس اقدام کے خلاف بین الاقوامی برادری کی طرف سے کوئی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
ایلزبتھ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کی دلچسپی اس بات تک محدود ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی صورت حال قابو سے باہر نہ ہو۔
تاہم ایلزبتھ تھریلکلڈ کے مطابق اس اقدام کو قانونی طور پر ضرور چیلنج کیا جائے گا کیونکہ بھارتی آئین واضح کرتا ہے کہ ایسا اقدام کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مشاورت کے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ تاہم مرکزی حکومت کچھ عرصہ پہلے کشمیر کی اسمبلی کو برخواست کر چکی ہے۔ لہذا ایسی مشاورت کا امکان پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں ضرور چیلنج ہو گا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی سطح پر کیے گئے اس فیصلے کے حوالے سے ملک کی عدلیہ کیسے رد عمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔
انتہا پسند ہندو نظریے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایلزبتھ تھریلکلڈ نے کہا کہ قوم پرستی اور انتہاپسندی کے نظریات اب دنیا بھر میں سامنے آ رہے ہیں جو قوموں میں تقسیم کا باعث بن رہے ہیں اور بھارت میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اس بات کا بھرپور جائزہ لیتی رہے گی کہ بھارتی حکومت کشمیر میں موجود برادریوں کے حقوق کی پاسداری کس انداز میں کرتی ہے۔
ایلزبتھ نے پاکستان کی طرف سے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں چند اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے ہیں اور اس نے ترکی، ملیشیا اور خلیجی ممالک سے تعاون حاصل کرنے کے سلسلے میں رابطے کیے ہیں تاہم بین الاقوامی برادری اس بارے میں زیادہ تر خاموش ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے بھارتی اقدام کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ تاہم چین نے خود اپنے صوبے سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چین کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اپنے اقدام کے حوالے سے بھارت کا بھی یہی مؤقف ہو گا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ کسی ملک کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔ یوں چین اس معاملے پر سخت رویہ اپنانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سٹمسن سینٹر میں جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر کہتی ہیں کہ اس منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے اور ان کے خیال میں اس بھارتی اقدام کے سی پیک پر کسی قسم کے اثرات مرتب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔