مودی کا مذاق اڑانے پر بھارت کی ٹرمپ پر نکتہ چینی

صدرٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات۔ فائل فوٹو

صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز وائٹ ہاوس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بہت اچھی طرح ملے۔ لیکن وہ مجھ سے مسلسل کہہ رہے تھے کہ انھوں نے افغانستان میں ایک لائبریری قائم کی ہے۔

بھارت نے افغانستان میں لائبریری کے قیام پر وزیر اعظم نریندر مودی کا مذاق اڑانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر نکتہ چینی کی ہے اور ان کے تبصرے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ اسے افغانستان کے سلسلے میں مسٹر ٹرمپ کے وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز وائٹ ہاوس میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بہت اچھی طرح ملے۔ لیکن وہ مجھ سے مسلسل کہہ رہے تھے کہ انھوں نے افغانستان میں ایک لائبریری قائم کی ہے۔

انھوں نے نامہ نگاروں سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ ایسا ہے جیسے ہم نے پانچ گھنٹے صرف کیے۔ پھر انھوں نے استہزائیہ انداز میں کہا کہ اوہ! لائبریری کے لیے شکریہ۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ افغانستان میں اس کا استعمال کون کر رہا ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اصل اپوزیشن کانگریس نے صدر ٹرمپ کے اس تبصرے پر نکتہ چینی کی ہے۔ بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ جب صدر ٹرمپ افغانستان میں ہر دوسری مدد کی مذمت کر رہے ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت افغانستان میں صرف لائبریری ہی نہیں بلکہ سڑک، ڈیم، اسکول اور پارلیمنٹ کی عمارت بھی بنا رہا ہے۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے ٹرمپ کے تبصرے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو افغانستان میں بھارت کی امداد کے بارے میں بتائے۔ انھوں نے کہا کہ جناب صدر آپ بھارتی وزیر اعظم کا مذاق اڑانا بند کریں۔ بھارت کو افغانستان کے بارے میں امریکہ کے وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔

خارجہ امور کے ماہر اور ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ایسے بیانات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ ڈپلومیٹک انداز نہیں جانتے۔ ان کے بیانات سیدھے سادے ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے بیانات سے ان کا دوہرا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ نکتہ چینی اور مذمت بھی کرتے ہیں اور پھر اس ملک کے صدر یا وزیر اعظم کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ یہ ان کا مزاج بھی ہے اور ان کی حکمت عملی بھی ہے۔ لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

بھارت افغانستان میں جاری اپنی امدادی سرگرمیوں میں دو ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

افغانستان نے تاحال اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوبھال سے جمعہ کے روز ملاقات کی ہے۔

امریکہ افغانستان میں فوج بھیجنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالتا آیا ہے جسے بھارت مسترد کرتا رہا ہے۔