وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ان شہروں میں بھیجنے پر غور کر رہا ہے جو انہیں پناہ دیتے ہیں اور انہیں ڈیپورٹ ہونے سے بچاتے رہے ہیں۔ تاہم سرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے کسی طرح کے فنڈز نہیں رکھے گئے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرز نے اتوار کو فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہم تمام امکانات کو سامنے رکھ رہے ہیں جب تک کہ ڈیموکریٹ پارٹی یہ تسلیم نہیں کر لیتی کہ سرحد پر ایک بحرانی کیفیت جاری ہے۔’’
ہفتے کے روز صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ‘‘ڈیموکریٹس کو جلد از جلد امیگریشن کے قوانین تبدیل کرنے چاہیئیں۔ ورنہ مرکزی حکومت کے قوانین کو اہمیت نہ دینے والے شہروں کو تمام غیرقانونی تارکین وطن کو اپنے پاس لے لینا چاہیے جن میں گینگ کے ارکان، منشیات کا کاروبار کرنے والے، انسانی اسمگلر اور ہر قسم اور سائز کے جرائم پیشہ افراد شامل ہیں۔ ان شہروں کو اپنے قوانین فوری تبدیل کرنے چاہیئیں۔’’
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ‘‘امریکہ کے پاس یہ مکمل اختیار ہے کہ ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کو انہیں محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے والے شہروں میں بھیج دے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا اعلیٰ پیمانے پر خیال رکھا جائے، خاص طور پر ریاست کیلی فورنیا، جو اپنی بدانتظامی اور زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔’’
ریاست واشنگٹن کے گورنر نے جے انزلی نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ ان کی ریاست ان تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتی ہے جو پناہ کے حصول سے متعلق عدالتی کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو اس بات سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہی نہ ہو، اور ہم اپنی ریاست میں تنوع سے نہیں ڈرتے۔’’
انہوں نے تارکین وطن کے مسئلے سے متعلق صدر ٹرمپ کے طرزعمل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نظام بنانا چاہئے جو پناہ سے متعلق زیادہ سے زیادہ مقدمات کو نمٹا سکے اور انہیں شہریت دے سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تارکین وطن کو قبول کرنا چاہئے کیوں کہ ہم انسانیت پر یقین رکھنے والی قوم ہیں۔’’
امریکہ میں سرحد کے قریب پناہ کے حصول کے لیے ہزاروں افراد مقیم ہیں اور اب حکام کے پاس انہیں دینے کو بستر کم پڑ گئے ہیں۔ اس صورت حال میں حکام بہت سے افراد کو اس وعدے پر ملک میں داخلے کی اجازت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہو جائیں۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کا کہنا ہے کہ کانگریس نے غیرقانونی تارکین وطن کو سرحد سے انہیں پناہ دینے والے شہروں میں منتقلی کے لیے فنڈ مختص نہیں کئے ہیں جب کہ کسٹم انفورسمنٹ ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ نیا آئیڈیا ‘‘غیر ضروری بوجھ ہو گا۔’’
ریپبلکن پارٹی کے ایک اہم رہنما لنزی گراہم نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس کی حالیہ چھٹیوں کے بعد وہ ایک ایسا قانون لائیں گے جس کے بعد حکام کو چھوٹے بچوں کو بھی 20 روز سے زیادہ عرصے تک حراست میں رکھنے کا اختیار مل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پناہ کے حصول سے متعلق قوانین کو سخت کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت تارکین وطن کے بچوں کو بھی اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کی گنجائش ہو۔
انہوں نے کہا کہ ‘‘عام تصور یہ ہے کہ اگر کوئی چھوٹے بچوں کے ساتھ امریکہ کی سرزمین پر اپنا قدم رکھ دے تو کوئی بھی اسے واپس نہیں بھیج سکتا۔ ہمیں اس بیانیئے کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں سرحد پر فوج تعینات کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ قوانین بدلنے ہوں گے۔