امریکی سینیٹ میں مواخذے کے مقدمے کی کارروائی میں منگل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کیا کہ صدر نے سیاسی فائدے کی غرض سے یوکرین کی فوجی امداد کو روکا۔
ایوان کے 100 سینیٹر منصف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے وکیل جے سکولو نے انہیں بتایا کہ ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ ہم نے ’کچھ دو کچھ لو‘ کی پالیسی پر کبھی عمل نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ٹرمپ نے کہا کہ 2020ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن سے متعلق تفتیش کی جائے۔ اور یہ کہ تب تک عارضی طور پر یوکرین کی 391 ملین ڈالر کی سالانہ امداد روکی جائے گی۔
امریکی سینیٹرز اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ صدر کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن سے تفتیش کی جائے یا نہیں۔
اُن کی آئندہ کتاب کے مسودے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کی دفاعی امداد اس وقت تک روکے رکھنے کی بات کی تھی، جب تک جو بائیڈن کے خلاف چھان بین مکمل نہیں کی جاتی۔
بولٹن کا یہ دعویٰ صدر ٹرمپ کے دفاع کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جن کا استدلال ہے کہ یوکرین کے ساتھ ’کچھ لو کچھ دو‘ نوعیت کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوا تھا۔
سکولو نے کہا کہ بائیڈن کے خلاف یوکرین کی جانب سے تفتیش کے پیچھے ’حکومت کا یہ جائز مفاد تھا‘ کہ ممکنہ بدعنوانی کے عنصر کی چھان بین کی جائے۔
بائیڈن کے بیٹے نے یوکرین کے قدرتی گیس کے ادارے میں ملازمت کی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ یوکرین نے 2016ء کے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی، جس میں صدر ٹرمپ کامیاب ہوئے تھے۔ بائیڈن خاندان کی جانب سے کسی غلط کام کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
25 جولائی کو صدر ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر سے ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں سکولو نے کہا کہ ’’انھیں پتا تھا کہ انھوں نے کیا بات کرنی ہے۔ یہ تاثر دینا کہ انھوں نے قومی مفاد کو سبقت نہیں دی، درست نہیں ہوگا۔‘‘
سکولو نے کہا کہ صدر ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں، جنھیں مسترد کیا جائے۔ آئین کی یہی ضرورت ہے۔ اور انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے۔‘‘
دوسری جانب اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ سپولون نے کہا کہ ’’جس قدر جلد ممکن ہو، یہ قصہ ختم ہوجانا چاہیے۔‘‘
پیر کو وکیل دفاع ایلن درشووٹز نے نے سینیٹ میں کہا تھا کہ بولٹن کے انکشافات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر یہ درست ہو، تب بھی یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں یا مواخذے کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔